Maktaba Wahhabi

93 - 531
مبارکہ کو پڑھ لیا جائے تو امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا اور اگر اسے نہ پڑھا جائے اور میت کو صرف ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی تلقین پر اکتفاء کر لیا جائے تاکہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس کی زبان سے ادا ہونے والے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ ہوں تو یہ بھی بہت اچھا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ اخبارات میں وفات کی خبر شائع کرنا سوال: اخبارات میں وفات کی خبر شائع کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے، بعض اوقات فوت شدہ کی تصویر بھی شائع کی جاتی ہے؟ جواب: خیر و بھلائی اور نیکی کے کاموں میں مشہور لوگوں کی اخبارات میں وفات کی خبر شائع کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ خبر پڑھنے والے مسلمان اس کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا کر سکیں۔ لیکن فوت شدگان کی ایسی تعریف کرنا جس کے وہ مستحق نہ ہوں جائز نہیں، کیونکہ یہ تو صریحا جھوٹ ہے اور نہ کسی کے بارے میں یقینی طور پر یہ کہنا جائز ہے کہ وہ قطعی جنتی ہے، کیونکہ اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی متعین آدمی کے بارے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ قطعی جنتی یا جہنمی ہے، ہاں البتہ ہم نیک لوگوں کے بارے میں جنت کی امید رکھتے ہیں اور گناہ گاروں کے بارے میں یہ خوف کہ وہ جہنم رسید ہوں گے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ موت کے بعد میت پر نوحہ خوانی سوال: کیا میت پر رونا جائز ہے؟ اگر رونے میں نوحہ کرنا، رخسار پیٹنا اور کپڑے پھاڑنا بھی شامل ہو تو کیا میت پر اس کا کوئی اثر پڑتا ہے؟ جواب: میت کی بے جا تعریف کرنا، نوحہ کرنا، کپڑے پھاڑنا، رخساروں کو پیٹنا اور اس طرح کی دوسری باتیں جائز نہیں ہیں، کیونکہ ’’صحیحین‘‘ میں ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ليس منا من ضرب الخدود‘ ح: 1297) ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریباں پھاڑے اور زمانہ ٔجاہلیت کے کلمات کہے۔‘‘ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی پر لعنت فرمائی ہے[1] اور یہ بھی آپ نے فرمایا ہے: (الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما يكره من النياحة علي الميت‘ ح: 1292) ’’نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں یہ الفاظ یہ ہیں:
Flag Counter