Maktaba Wahhabi

16 - 495
رکھا ہے۔یعنی مفتی حضرات سے جب دینی مسائل دریافت کیے جاتے ہیں تو ان کا جواب دیتے وقت گویا وہ اللہ رب العزت کی طرف سے دستخط کرتے ہیں۔علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ''جب ملوک وسلاطین کی طرف سے دستخط کرنے کامنصب اس قدر بلند ہے کہ اس کی قدرومنزلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور دنیا میں اسے اعلیٰ مرتبہ شمار کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستخط کرنے کی عظمت وشان تو اس سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہے۔''(اعلام الموقعین :ج 1 ص 10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر اس عالی شان منصب پر فائز رہے کیونکہ نبوت کااصل محو ر یہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' ہم نے آپ کی طرف ذکر (شریعت) کو نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان کی طرف نازل شدہ شریعت کی تشریح فرمائیں تاکہ وہ غور وفکر کریں ۔''(16/النحل :44) علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''یقیناً فتوی دینا انتہائی حساس قابل قدر اور بڑی فضیلت والا کام ہے کیونکہ مفتی حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کا وارث ہوتا ہے اور فرض کفایہ کوادا کرتا ہے۔گو وہ ان کی طرح معصوم عن الخطا نہیں ہوتا بلکہ اس سے سہو وخطا کا صدور ممکن ہوتاہے ،غالباً اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ مفتی اللہ رب العزت کی طرف سے دستخط کرنے والا ہوتا ہے۔''(المجموع :ج1 ص72) چونکہ فتویٰ کا موضوع اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کرنا ہے تاکہ لوگ ان کے مطابق عمل کرسکیں، اسی لئے مفتی کو اللہ تعالیٰ کا ترجمان قرار دیا جاتا ہے۔ مذکورہ حقائق سے معلوم ہوا کہ فتویٰ انتہائی حساس اور بلند پایہ معاملہ ہے اور بہت بڑی ذمہ داری کا حامل ہے۔ مفتی اور اس کی شروط مسند افتاء پر فائز ہونے والے حضرات فاضل کو مفتی کہا جاتا ہے، ان میں چند شروط کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: علم: اسلام، عقل اور بلوغ کی شرائط کے بعد ایک مفتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہو کیونکہ علم کے بغیر فتویٰ دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ایسا کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اور لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمادیجئے!یقینا ً میرے رب نے ظاہری اور پوشیدہ فحاشی، نیز گناہ اور ناحق بغاوت،بلا دلیل اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اور علم کے بغیر اللہ پرافتراء پردازی سے منع فرمایا ہے۔(7/الاعراف :33) اس آیت کریمہ میں کلمہ حصر''انما'' کے ساتھ محرمات کو ذکر کرتے ہوئے بلاعلم فتویٰ دینے کو فواحش، بغاوت اورشرک کے ساتھ ذکر کیا ہے۔اورترتیب کے اعتبار سے اسے آخر میں بیان کیا ہے۔ اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تینوں گناہ اپنی جگہ پر اکبر الکبائر میں سے ہیں لیکن علم کے بغیر فتویٰ دینا ان تینوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس جرم کی شناعت کوبیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:''جو جھوٹ تمہاری زبانوں پر آجائے اس کی بنا پر یوں نہ کیا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ
Flag Counter