Maktaba Wahhabi

230 - 495
خرید و فروخت سوال۔فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ آج کل قسطوں کاکاروبار تقریباً 75 فیصد لوگ کررہے ہیں۔جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی گاڑی نقد خریدتا ہے تو وہ پانچ لاکھ روپے کی ہے لیکن قسطوں میں وہی گاڑی آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے کیا یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟ جواب۔واضح رہے کہ صورت مسئولہ کا تعلق مالی معاملات سے ہے، مالی معاملات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال رضا مندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے۔''(4/النساء :29) باطل طریقہ سے مراد لین دین ،کا روبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضا مندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد محفوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا غر ر یا ضرر کاہدف بنتا ہے۔اگر کسی معاملہ میں دھوکہ پایا گیا یااس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہوں تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں۔جنھیں شریعت نے ناجائز ٹھہرایا ہے، اس لئے لین دین اورباہمی تجارت نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو اور نہ ہی اس میں فریب اور ضرر کو دخل ہو اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے۔(2/البقرہ 275) لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہیں ہے ۔بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ 1۔فریقین باہمی رضا مندی سے سودا کریں۔ 2۔خرید کردہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔ 3۔قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔ 4۔فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوا نہ ہو۔ 5۔خریدوفروخت کسی حرام چیز کی نہ ہو او ر نہ ہی اس میں سود وغیرہ کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔ 6۔اس خریدوفروخت میں کسی فریق کو دھوکہ دینامقصود نہ ہو۔ 7۔اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھاگیا ہو۔ کتب حدیث میں خریدوفروخت کی تقریباً 30 اقسام کو انہی وجہ سے حرام ٹھہرایا گیا ہے۔پھر عام طور پرخریدوفروخت کی دو قسمیں ہیں: (الف) نقد۔(ب) ادھار۔ نقد یہ ہے کہ چیز اور اس کا معاوضہ فوراً حوالے کردیا جائے۔پھر معاوضہ کے لحاظ سے اس کی مزید دو اقسام ہیں: 1۔معاوضہ نقدی کی صورت میں ہو۔
Flag Counter