Maktaba Wahhabi

275 - 495
وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔ ( مضاربت کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ اس میں منافع کی شرح نسبت کی بنیاد پر ہو ،مثلا ایک آدمی محنت کرتا ہے اور دوسرا رقم دیتا ہے تو اخراجات کے بعد جو منافع ہوگا وہ ایک خاص شرح کے بعد تقسیم ہوگا ،مثلاً 50٪ محنت کرنے والا اور 50٪ رقم خرچ کرنے والا یا اور کوئی شرح مقرر کرلی جاتی ہے۔لیکن صرف رقم پر معین منافع عقد مضاربت کے لئے مفسد قرار دیا گیا ہے جیسا کہ بیمہ زندگی میں ہوتا ہے۔مثلاً جمع شدہ رقم پر 10٪ نفع دیا جائے گا۔اس لئے دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ بادی النظر دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ ( اگر مضاربت میں نقصان ہو تو اس نقصان کو صرف سرمایہ لگانے والا برداشت کرتا ہے ،مضارب کی محنت تو ضائع ہوتی ہے اس کے علاوہ مالی نقصان میں وہ شریک نہیں ہوتا جبکہ بیمہ کے کاروبار میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس کاروبار میں سرمایہ کار کوہر صورت منافع ہی ملتا ہے نقصان کی صورت میں کمپنی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ( مضاربت میں سرمایہ کار کو علم ہوتا ہےکہ میری رقم کس قسم کے کاروبار میں صرف ہورہی ہے جبکہ بیمہ میں سرمایہ کار کو اس قسم کے معاملات سے بالکل لاتعلق رکھا جاتا ہے۔ ( مضاربت میں اگر سرمایہ کار مر جائے تو اس کی ر قم ورثاء کو ملتی ہے جبکہ بیمہ کے کاروبار میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ موت کی صورت میں اس کا حقدار اس کا نامز د کرتا ہوتا ہے۔شرعی ورثاء اس کے حق دار نہیں ہوتے۔ اس میں قانون وراثت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ہماری بیان کردہ وجوہات کی بناپر بیمہ کا کاروبار مضاربت سے مشابہت نہیں رکھتا ۔ بیمہ کی جائز صورتیں بیمہ عملی طور پرجن صورتوں پر مشتمل ہے ا س کی تین اقسام ہیں: 1۔اجتماعی بیمہ اسے حکومت یا اس کا نامز د کردہ کوئی ادارہ چلاتا ہے۔عام طو ر پر محنت مزدوری کرنے والوں کو اس میں شامل کیاجاتا ہے۔ مزدوری کرتے وقت جو حوادث یا امراض لاحق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مزدور معذور ہوجاتے ہیں یا وہ بڑھاپے میں پہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں، تو ان کا بیمہ کیاجاتا ہے۔ اس کے لئے آجر ،اجیر اور حکومت اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کاروبار نہیں بلکہ ایک خدمت ہے جسے شریعت نے پسند کیاہے اور ایسا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ 2۔باہمی بیمہ یہ کاروبار امداد باہمی کی انجمنیں چلاتی ہیں ،جو ایسے ارکان سے مل کرتشکیل پاتی ہیں۔ جنھیں ایک ہی طرح کے خطرات کا سامنا ہوتاہے۔ اگر کسی کو حادثہ پیش آ جائے تو جمع شدہ رقم سے ا س کی تلافی کردی جاتی ہے۔اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ 3۔مقررہ اقساط والا بیمہ بیمہ کی یہی صورت تھی جسے سابقہ سطور میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ہمارے نزدیک بیمہ کی یہ صورت حرام اور ناجائز ہے کیوں کہ اس میں دھوکہ، جوا ،سودجیسے عناصر شامل ہیں۔بعض لوگ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مولا نا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک فتویٰ کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے جائز لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے فتوی میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے موجودہ بیمہ کاری کا جواز کشید کیاجائے ۔ تفصیل کے لئے فتاویٰ ثنائیہ ص371 ج1 کا مطالعہ مفید رہے گا۔اس پر مولانامحمد
Flag Counter