Maktaba Wahhabi

279 - 495
وصیت و وراثت سوال۔ہمارا ایک عزیز فوت ہوگیا ہے۔ پسماندگان میں ایک بیوہ ،دو بیٹیاں اور ایک پوتاہے ،اس نے وصیت کی ہے کہ میری جائیداد میں سے 8/1 بیوہ کو اور باقی 8/7 میں سے نصف میری دونوں بیٹیوں کو اور نصف میرے پوتے کو دیاجائے ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ایسا کرنا جائز ہے؟اگر یہ وصیت جائز نہیں ہے تو صحیح تقسیم کیسے ہوگی؟ (سائل: بشیر احمد مجاہد ملتانی) جواب۔واضح ہو کہ وصیت کے ذریعے جو تقسیم کی گئی ہے وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ شرعی تقسیم حسب ذیل ہے :بیوہ کو اولاد کی موجودگی میں ایک بٹہ آٹھ دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر میت کی اولاد ہو تو ان(بیویوں ) کا آٹھواں حصہ ہے۔''(4/النساء :12) بیٹیوں کو دو بٹہ تین ملتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر میت کی صرف لڑکیاں ہوں تو ( دو یا) دو سے زیادہ کو د و بٹہ تین دیا جائے۔(4/النساء :11) پوتا عصبہ ہے جو مقررہ حصہ پانے والوں سے بچا ہوا ترکہ لیتا ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' مقررہ حصہ داروں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریب تررشتہ دار کے لئے ہے۔''( صحیح بخاری: کتاب الفرائض) سوال۔میانوالی سے ضیاء الرحمٰن سوال کرتے ہیں کہ آپ نے شمارہ نمبر 16میں ایک حدیث بایں الفاظ نقل کی ہے۔'' جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے،جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے،اللہ تعالیٰ جنت میں ا س کی وراثت کوختم کردیں گے۔''(شعب الایمان :14/115) اس کی سند کے متعلق مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں '' کہ از حد کمزور ہے، اس میں دو راوی ضعیف ہیں اور ایک کذاب ہے۔ سوید بن سعید اور زید عجمی دونوں ضعیف ہیں۔ اور عبدالرحیم بن زید کذاب ہے۔''آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ آپ نے اس ضعیف حدیث کو دلیل کیونکر بنایا ہے؟ نیز میری بڑی ہمشیرہ جس نے شادی نہیں کی بلکہ اپنی عمر والدین کی خدمت میں گزار دی ہے۔ والد کی زمین کا تمام حساب اس کے پاس رہتا تھا، والد مرحوم کی وفات کے بعد زمین کی پیداوار سےحاصل شدہ رقم کے حساب میں ٹال مٹول کرتی ہیں، اس کا کہنا کہ کچھ رقم خرچ ہوچکی ہے اور بقیہ والد مرحوم میرے نام کر گئے ہیں۔لیکن کوئی تحریری ثبوت یا گواہ نہیں ہے کیا اس کا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟ جواب۔توجہ دلانے پر آپ کا شکر گزار ہوں تاہم قارئین اہل حدیث اس حیثیت سے مطمئن رہیں کہ ضعیف حدیث کے متعلق ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے جس سند کے متعلق گفتگو فرمائی ہے وہ ابن ماجہ میں مروی حدیث سے متعلق ہے۔ جبکہ ہمارا استدلال ابن ماجہ کی حدیث نہیں اور نہ ہی ہم نے اس کا حوالہ دیاہے۔ بلکہ ہمارے موقف کی بنیاد شعب الایمان کی حدیث ہے جس کا فتویٰ میں حوالہ دیا گیا تھا۔ اس روایت میں کوئی مجروح راوی نہیں، اس سند کے راوی
Flag Counter