Maktaba Wahhabi

323 - 494
لیکن مذکورہ مؤقف اختیار کرنے میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں وہ کسی صاحب عقل سے مخفی نہیں ہیں کہ ایک لڑکی کا جب خاوند لا پتہ ہو اتو لڑکی کی عمر اٹھارہ سال تھی پھر اسے اٹھانوے سال اپنے لا پتہ شوہر کے انتظار میں گزارنے ہوں گے تاآنکہ اس کی موت یقینی ہو جائے، اس عمر میں وہ خاک شادی کرے گی، اس مؤقف کی سنگینی کو خود اختیار کرنے والوں نے محسوس کیا اور اس کے غیر معقول ہونے کا فیصلہ دیا، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ایسی مظلومہ کے لیے ایک کتاب ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ لکھی وہ اس میں فرماتے ہیں: ’’فقہاء حنفیہ میں سے بعض متاخرین نے وقت کی نزاکت اورفتنوں پر نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر فتویٰ دیا ہے، ایک عرصہ سے ارباب فتویٰ اہل ہندو بیرون ہند تقریباً سب نے اس قول پر فتویٰ دینا اختیار کر لیا ہے او ریہ مسئلہ اس وقت ایک حیثیت سے فقہ حنفی ہی میں داخل ہو گیا۔ [1] امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کی بیوی کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے کہ وہ خاوند کے لاپتہ ہونے کے وقت سے چار سال گزر جانے تک انتظار کرے پھر اس خاوند پر فوت ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اس کے بعد عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی، پھر اسے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہو گی۔[2] امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ اگر نکاح ثانی سے پہلے پہلے لا پتہ خاوند گھر آجائے تو وہ بیوی اسی کی ہو گی اور اگر وہ نکاح ثانی کر لینے کے بعد بازیاب ہو تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا، اگرچہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں اسے حق مہر اور بیوی میں سے ایک کا اختیار دیا جائے گا لیکن پہلا مؤقف ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ یعنی اگر اس کی بیوی نکاح ثانی کر لیتی ہے تو اسے اپنی بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔ دراصل امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کے متعلق جو مؤقف اختیار کیا ہے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کو بنیاد بنایا ہے۔ ان کے ہاں اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’لا پتہ آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے، پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کرے۔‘‘ [3] بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔[4] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسی مؤقف کو اپنایا ہے۔ [5] حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر شوہر دوران جنگ لا پتہ ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال انتظار کرے اور اگر جنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ لا پتہ ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔ [6] بہرحال قرآن کریم نے عورتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھے انداز سے زندگی گزارو۔[7] نیز فرمایا کہ انہیں محض تکلیف دینے کے لیے اپنے گھروں میں مت بند کرو۔‘‘ [8]
Flag Counter