Maktaba Wahhabi

224 - 452
الفاظ لکھے ہو تے ہیں ، وہ انتہائی محل نظر ہیں ، الفاظ یہ ہیں :’’وبصوم غدٍ نویت من شھرِ رمضان‘‘ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ میں آئندہ کل کے روزے کی نیت کر رہا ہوں ۔ ‘‘ عربی زبان کے لحاظ سے بھی یہ نیت درست نہیں کیونکہ روزہ آج کا رکھا جا رہا ہے اور نیت آئندہ کل کے روزے کی کی جا رہی ہے ۔ بہر حال یہ الفاظ شرعاً درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کے الفاظ ثابت نہیں ، نیت چونکہ دل کا فعل ہے ، اس لیے دل میں عزم کر لینا ہی کافی ہے، زبان سے اس کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ (واللہ اعلم) سحری دیر سے کرنا سوال: ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو طلوع فجر سے کافی وقت پہلے سحری کھا کر سو جا تے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں اس عمل کی کوئی گنجائش ہے ؟ جواب: روزہ کے متعلق عام اصول یہ ہے کہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر ہونی چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں حضرت ابو عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا، ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی موجود ہیں، ان میں سے ایک روزہ جلدی کھولتے ہیں اور سحری تاخیر سے کھا تے ہیں اور دوسرے صحابی افطار دیر سے کر تے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں ۔ انھوں نے فرمایا: ان میں افطار اول وقت اور سحری آخر وقت کر نے والا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا۔ [1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سحری میں دیر کرنی چاہیے ، اسے جلدی کھا کر سو جانا مستحسن امر نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں درج ذیل قباحتیں ہیں۔ 1۔ یہ لوگ وقت سے پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں۔ 2۔ اکثر نماز فجر با جماعت ادا نہیں ہو تی۔ اس طرح فرض نماز با جماعت چھوڑنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ 3۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ ایسے لوگ نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد ادا کر تے ہیں جو گناہ اور جرم ہے۔ ہاں اگر کوئی مجبور ہو تو الگ بات ہے عام حالات میں سحری میں تاخیر کرنا ہی مستحب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا کہ افطاری آفتاب غروب ہو تے ہی جلدی کر تے اور سحری آخر میں کھا تے تھے۔ (واللہ اعلم) ترک شدہ روزوں کا فدیہ سوال: ایک آدمی فوت ہوا اور اُس کے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے ، اب اس کی طرف سے ترک شدہ روزوں کا فدیہ دیا جائے یا کوئی عزیز رشتہ دار اس کی طرف سے فوت شدہ روزوں کو رکھے ، کتاب و سنت کے مطابق اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ جواب: روزہ ایک عبادت ہے اور عبادات میں نیابت نہیں ہو تی بلکہ اسے انسان نے خود ہی ادا کرنا ہو تا ہے ہاں اگر کسی عبادت میں قرآن و حدیث سے نیابت ثابت ہو تو اس پر عمل کیا جا سکتاہے بصورت دیگر توقف کرنا ہو گا مثلاً کسی انسان کی ترک کر دہ
Flag Counter