Maktaba Wahhabi

236 - 452
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہو گئے تو رمضان میں روزہ نہ رکھتے اور اس کے بدلے ایک مسکین کو ہر دن کھانا کھلا دیتے تھے۔[1] ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے، آپ فرما تے ہیں : آیت کریمہ میں ’’علی الذین یطیقونہ‘‘سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھنے میں انتہائی مشقت محسوس کریں، وہ روزہ رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیں اور اس سے اگلے الفاظ ’’جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو اچھی بات ہے ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایک سے زائد مسکین کا کھانا فدیہ میں دے دے تو بہت اچھا ہے ۔ بہر حال یہ آیت منسوخ نہیں، بلکہ یہ رخصت اس شخص کو ہے جو انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے روزہ بر داشت نہیں کر سکتا یا وہ مریض جس کی صحت یابی کی کوئی امید نہیں ۔ [2] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو معنی بیان کیا ہے وہ عربی لغت سے بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ خاصیات ابواب میں ایک خاصہ ’’سلب ماخذ‘‘ہے جیسا کہ اشکیت کا معنی شکایت کو دور کرنا ہے، اسی طرح یطیقونہ کا معنی یہ ہے کہ جو روزے رکھنے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے۔ لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر اپنی جگہ درست ہے ، آیت میں دونوں معانی کا احتمال موجود ہے۔ اگر پہلا معنی مراد لیں تو یہ آیت منسوخ ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اگر دوسرا معنی مراد لیا جائے تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف ہے۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزے سوال: حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ معاف ہے یا اسے بعد میں قضا دینا ہو گی، اس کے متعلق صحیح موقف کی وضاحت فرمائیں۔ جواب: حاملہ اور اپنے بچے کو دودھ پلانے والی عورت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف کر دیا ہے، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی۔ ‘‘[3] امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف ہے کہ جب حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اللہ تعالیٰ نے روزہ معاف کر دیا ہے تو اسے قضا یا فدیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ ان پر قضا اور فدیہ واجب کرنا ایسا فیصلہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ۔ قضا تو صرف مریض ، مسافر، حائضہ اور نفاس والی عورت کے ذمے ہے ۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اس کی ضرورت نہیں۔ [4] لیکن جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا، ان کے نزدیک حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر بچے کے نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ ترک کر دہ روزہ کے بدلے وہ فدیہ دے دے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے اور صحابہ میں ان کا کوئی مخالف بھی نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی حاملہ لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے فدیہ دے دے۔[5]
Flag Counter