Maktaba Wahhabi

238 - 452
کے فوت شدہ روزوں کی قضا ہو تی تھی لیکن میں ماہ شعبان میں انہیں رکھا کر تی تھی۔ ‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس حدیث کے پیش نظر رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جا سکتا ہے یہ تاخیر کسی عذر کی بنا پر ہو یا کسی عذر کے بغیر تاخیر ہو ۔[2] لیکن بہتر ہے کہ فوت شدہ روزوں کی قضا میں تاخیر نہ کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائی کے کاموں میں جلدی کر تے ہیں اور ان کی طرف دوڑ جا نے والے ہیں۔‘‘[3] فوت شدہ روزوں کی قضا مسلسل ضروری نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تو وہ دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرے۔‘‘[4] اللہ تعالیٰ نے فوت شدہ روزوں کی گنتی پورا کر نے کا حکم دیا ہے، ان میں تسلسل ضروری نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’متفرق طور پر روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘[5] امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس معلق روایت کو صحیح سند کے ساتھ پیش کیا ہے۔[6] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ اگر چاہے تو انہیں مسلسل رکھ لے اور اگر چاہے تو متفرق طور پر رکھ لے۔ [7] اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو بیان کیا جا تا ہے کہ فوت شدہ روزوں کو مسلسل رکھنا چاہیے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مغنی، ص ۴۳،ج۳)واللہ اعلم روزہ کے لیے مانع حیض گو لیوں کا استعمال سوال: اکثر دین دار خواتین رمضان المبارک میں مانع حیض گولیاں استعما ل کرتی ہیں تاکہ رمضان میں مکمل ماہ کے روزوں کی سعادت حاصل کر سکیں، کیا کتاب و سنت کی روشنی میں ایسا کرنا جائز ہے ؟ جواب: اگر کو ئی عورت رمضان میں حالتِ ایام میں ہے تو اس پر روزہ ترک کرنا لازم ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’کہ جب عورت حالتِ حیض میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین کا نقصان ہے۔ ‘‘[8] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’حائضہ عورت کو روزہ اور نماز چھوڑ دینا چاہیے۔ ‘‘ اس کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں :’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب حیض آتا تو ہمیں روزہ قضا کرنے کا حکم دیا جا تا اور نماز کی قضا کا نہیں کہا جا تا تھا۔ ‘‘[9] ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حائضہ عورت پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا ضروری نہیں بلکہ روزہ ترک کر نا واجب ہے اور
Flag Counter