Maktaba Wahhabi

246 - 452
ہے جس قدر اس پر اخراجات اٹھتے ہوں مثلاً بکری کواگر چارہ ڈالنا ہے تو اس کا دودھ حاصل کر لیا جائے اور اگر سواری کا جانور ہے تو چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس پر سواری کر لی جائے۔ دور حاضرمیں اگر کسی نے گاڑی گروی رکھی ہے تو اپنا پٹرول ڈال کر اس پر سفر کیا جا سکتا ہے لیکن گروی میں زمین لے کر اسے کاشت کرنا اور پیدا وار خود اٹھانا یا مکان کے عوض خود رہائش رکھنا یا کسی کو کرایہ پر دے کر خود کرایہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں جس شخص کا مکان ہے وہ خود ہی کرایہ دار کی حیثیت سے اس مکان میں رہائش رکھے ہوئے ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے ، اگر اس کے کرایہ کو اصل قرض سے منہا کر دیا جائے تو جائز ہے۔ اسی طرح زمین کی پیدا وار کو بقدر حصہ اگر قرض سے منہا کر دیا جائے تو گروی شدہ زمین کو کاشت کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر گروی چیز سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) بینک کا نفع سوال: بنک والے سیونگ کھاتے میں رکھے ہوئے سرمایہ پر نفع دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے کاروبار میں لگاتے ہیں،کیا یہ منافع بھی سود کے ضمن میں آتے ہیں، اس کے متعلق تفصیلی فتویٰ درکار ہے۔ جواب: بنک میں عام طور پر ہر دو قسم کے کھاتے ہو تے ہیں ، ایک کرنٹ کھاتہ اور دوسرا سیونگ کھاتہ ، کرنٹ میں رکھی گئی رقم پر بنک کسی قسم کا نفع نہیں دیتا اور نہ ہی اس سے زکوۃ کی رقم کاٹی جاتی ہے ، البتہ بنک اس رقم کو اپنے استعمال میں ضرور لا تا ہے اور اسے دوسروں کو سود پردیتا ہے ، ہمارے رجحان کے مطابق اس کھاتے کے ذریعے گناہ اور ظلم پر بنک کا تعاون کیا جا تا ہے جس کی قرآن میں ممانعت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’نیکی اور پر ہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ، ظلم اور گناہ میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘ [1] اگرچہ کرنٹ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر اس کے اصل مالک کو کچھ نہیں دیا جا تا تاہم اس رقم کو سودی کاروبار کے لیے استعمال کیا جا تا ہے ۔ بنک میں دوسرا کھاتہ سیونگ کہلا تا ہے، اس رقم پر اصل مالک کو سود بھی دیا جا تا ہے جسے بنک والے منافع کا نام دیتے ہیں۔ لیکن نام کی تبدیلی سے حقیقت نہیں بدل جاتی ، لو گوں کو پھانسنے کے لیے اس کھاتے کے مختلف نام ہیں۔ مثلاً شراکتی کھاتہ، نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت داری، اس کا مشہور نام (P.L.S)ہے ، اس کھاتے میں رکھی ہوئی رقم کو آگے بھاری سود پر دوسروں کو دیا جا تاہے ،پھر اس سود کو ایک خاص شرح سے اصل مالک کے کھاتے میں جمع کر دیا جا تا ہے، اگر چہ دعویٰ کیا جا تا ہے کہ اس کھاتے میں جمع شدہ رقم کو کاروبار میں لگایا جا تا ہے اور اکاؤنٹ ہولڈ ر کی حیثیت ایک شریک کی ہو تی ہے لیکن زمینی حقائق اس دعویٰ کے منافی ہیں ، کیونکہ اس میں سودی رقم کو مارک اپ جیسے حسین الفاظ کا نام دیا گیا ہے ، بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق سیونگ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر ملنے والے ’’منافع ‘‘سود ہی ہیں ، ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، اگر حکومت واقعی غیر سودی نظام ختم کرنا چاہتی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اس پورے نظام کو بدلنے کا تہیہ کرے جو خالص سود پر مبنی ہے تاکہ مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ غیر سودی بینکاری کو کامیاب بنا نے میں حصہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
Flag Counter