Maktaba Wahhabi

249 - 452
کھانے والے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔[1] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے:’’یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(حوالہ مذکور)لہٰذا ایک با غیرت مسلمان کو چاہیے کہ وہ بینک کی ملازمت سے اجتناب کرے خواہ وہ درجہ چہارم میں ہی کیوں نہ ہو۔ بعض روشن خیال حضرات کا خیال ہے کہ قرآن کریم نے جس سود کو حرام کیا ہے وہ مہاجن قرضہ ہے اس پر سود لینا حرام ہے لیکن جو صنعتی قرضے ہیں یا جو تجارت کے لیے قرضہ لیا جائے، اس پر سود لینا دینا حرام نہیں ہے بلکہ تجارتی سود اس سے مستثنیٰ ہے ، حالانکہ اس استدلال کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قر آن کریم نے علی الاطلاق ربا کو حرام قرار دیا ہے خواہ وہ تجارت کےلیے ہو یا ذاتی ضروریات کے لیے ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں بھی تجارتی سود رائج تھا، چنانچہ حرمت سے قبل حضرت عباس رضی اللہ عنہ تجارتی سود کا لین دین کر تے تھے۔ بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق بینک میں ہر طرح کی ملازمت نا جائز ہے ، اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’گناہ اور سر کشی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔ ‘‘[2] اس آیتِ کریمہ کا بھی تقاضا ہے کہ بینک کی ملازمت نہ کی جائے کیونکہ بینک میں ملازمت کرنا سودی کاروبار میں تعاون کرنے کے مترادف ہے۔ (واللہ اعلم) تکافل کی شرعی حیثیت سوال: ہمارے ملک میں کچھ تجارتی کمپنیاں بیمہ کا متبادل تکافل کے نام سے متعارف کرا رہی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے، اس سلسلہ میں علما کبار کے فتاویٰ کا بھی حوالہ دیا جا تا ہے، اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ جواب: عربی زبان میں تکافل کا معنی کفالت کرنا اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا ہے۔ قرآن و حدیث میں اگرچہ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا تاہم اسلام نے ہمیں ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنے، خیر خواہی اور تعاون کر نے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ زکوۃ، عشر، صدقہ فطر اور دیگر خیرات اسی امر کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ اگر ہم صدق دل سے ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو معاشرہ میں تمام محتاجوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جو تکافل کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے اس کا مقصد ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرنا ہر گز نہیں بلکہ اس میں اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی ہے۔ اس نظام کے تحت یہ مطالبہ کیا جا تا ہےکہ ہم آپ کے بیوی بچوں کی مدد تب کریں گے جب آپ اتنے سالوں تک ہر ماہ ایک متعین رقم دیں گے اور ہمارے قائم کر دہ وقف فنڈ میں اتنی رقم بطور چندہ دیں گے اور اس نظام کو بیمہ کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا تا ہے۔ اگرچہ اس تکافل اور عام بیمہ میں فرق ہے :مثلاً نظام تکافل میں شریک ہونے ولا جو بالاقساط رقم جمع کر تا ہے اس کی حیثیت عام صارف کی نہیں جیسا کہ بیمہ کرانے والےکی ہوتی ہے بلکہ وہ مجموعی رقم میں شریک بن جا تاہے۔ تکا فل میں جمع شدہ رقم پر جو منافع آ تا ہے اسے
Flag Counter