Maktaba Wahhabi

260 - 452
وہاں دیگر اوصاف(نئے اور پرانے ہونے)کا اعتبار نہیں کیا جا تا ۔ لہٰذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو اس کی قیمت ایک روپیہ ہی رہے گی ۔ اس طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہو جائے اس کی قیمت بھی ایک روپیہ سے کم نہیں ہو گی حالانکہ دونوں کے اوصاف میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، بازاری اصطلاح میں بھی یہ فرق کالعدم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر اگر ایک روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو شرعاً ناجائز اور صریح سود ہو گا۔ ہاں اگر نوٹ یا سکہ کی حیثیت ختم ہو جائے اور وہ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں اور ان کی ظاہری قیمت کالعدم ہو جائے مثلاً ہمارے ہاں آج کل ایک روپیہ، دو روپیہ اور پانچ روپیہ کا نوٹ ختم ہو چکا ہے، اگر کوئی ان نوٹوں کو بطور یاد گار خریدتا ہے اور زیادہ قیمت اد ا کرتا ہےتو بظاہر اس قسم کی کمی بیشی کی گنجائش ہے۔ اس طرح ہمارے ہاں سوراخ والا تانبے کا پیسہ بھی ختم ہو چکا ہے ، اسی طرح تانبے کا روپے والا سکہ بھی ناپید ہے، اگر کوئی زر گر انہیں زیادہ قیمت ادا کر کے خریدتا ہے تاکہ سونا میں ملاوٹ یا ٹانکہ لگانے میں استعمال کرے تو شرعاً ایسا جائز ہے ۔ لیکن سدِ باب کے طورپر اسے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نئے نوٹوں کے پانچ (۵۰۰)سو روپے والا بنڈل پانچ سو پچاس (۵۵۰)روپے میں فروخت کرنا یا اسے خریدنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں مساوی جنس کا تبادلہ مساوی جنس سےاضافہ کے ساتھ کیا جا تاہے، احادیث میں اسے صریح سود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم) کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت سوال: ہمارے ہاں رائج کرنسی نوٹ پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے کہ ’’بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ہذاکومطالبہ پر ادا کرے گا۔ ‘‘ اس عبارت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ہزار روپے کا نوٹ ایک رسید ہے، اس کی ذاتی حیثیت کچھ نہیں ، اس کے متعلق وضاحت کریں کہ اس کی شرعی حیثیت کیاہے، آیا یہ رسید ہے یا واقعی ہزار روپیہ ہے؟ جواب: کاغذی نوٹ پر کئی ایک ادوار گزرے ہیں، پہلے اس کے پیچھے مکمل طور پر سونا ہو تا تھا پھر ایک وقت آیا کہ اس کے پیچھے مکمل طور پر تو سونا نہیں ہو تا تھا لیکن ایک مخصوص تعداد میں سونا ضرور ہو تا تھا ، اس کے بعد کرنسی نوٹ کو ڈالر سے وابستہ کر دیا گیا اورڈ الر سونے سے وابستہ تھا۔ ۱۹۷۱ءکے بعد امریکہ نے بھی سونا دینے سے انکار کر دیا، اب ہمارے ہاں رائج کرنسی کے پیچھے کوئی چیز نہیں۔ نوٹ پر لکھی ہوئی عبارت ’’حامل ہذا کو عند الطلب اتنے روپے ادا کیے جائیں گے ‘‘ بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ اب یہ نوٹ محض آلہ تبادلہ کا کام دیتے ہیں، ایسی صورت حال کے پیش نظر اس کاغذی نوٹ کے متعلق حسب ذیل دو تشریحات کی جاتی ہیں: 1 یہ نوٹ سند حوالہ اور ایک رسید کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو یہ نوٹ دیا جا تا ہے ، اس کی یہ رقم جو نوٹ پر لکھی ہو تی ہے بینک دولت پاکستان کے ذمے ایک قرض ہے یعنی جو شخص ہزار روپے کےنوٹ کے ذریعے جو چیز خریدتا ہے وہ دوکاندار کو بینک پر حوالہ کرتا ہے کہ بینک کے ذمے جو میرا قرض ہے وہ اس نوٹ کی وساطت سے بینک سے وصول کرے۔ اس کا
Flag Counter