Maktaba Wahhabi

263 - 452
7 مکانات کی تعمیر میں جو ہاؤس فنانس سکیم سے تعاون ملتا ہے اس پر کرایہ کے نام سے سود ہی وصول کیا جا تا ہے۔ الغرض سودی دھندا کرنے والے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور انھوں نے پھنسانے کے لیے ہم رنگ زمین جال بچھا رکھے ہیں، ان سے بچاؤ کی صورت اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضروری ہے، ہمیں ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنا چاہے۔ جانور کی پر ورش اور منافع سوال: ایک آدمی کوئی جانور خرید کر دوسرے شخص کو دیتا ہے تاکہ وہ اس کی پر ورش اور دیکھ بھال کرے کچھ عرصہ بعد اسے فروخت کر دیا جا تاہے، قیمت خرید اصل مالک کو دے کر باقی رقم تقسیم کر لی جا تی ہے، کیا ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے ؟ جواب: جواب سے قبل ایک اصول ملاحظہ کریں کہ عبادات میں اصل ’حرمت‘ ہے سوائے اس کے کہ ان کے بجا لانے کا حکم شریعت میں آ جائے جبکہ عادات و معاملات میں اصل’حلت‘ ہے ، الا یہ کہ اس کے متعلق کوئی امتناعی حکم شریعت میں آ جائے۔ اس وضاحت کے بعد جب ہم سوال میں ذکر کر دہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کا تعلق باہمی معاملات سے معلوم ہوتا ہے اور اس کے ناجائز یا حرام ہونے کے متعلق شریعت میں کوئی نص نہیں ، لہٰذا ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، ہاں اگر اس دوران جانور مر جاتا ہے تو پہلے آدمی کی رقم اور دوسرے کی محنت رائیگاں جاتی ہے، اس پر مزید کوئی تاوان نہ لیا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اسلام سے قبل لوگ کئی چیزوں کو استعمال کرتے اور کئی چیزوں کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرّم کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل کی، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ٹھہرایا، تو جس چیز کو اس نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے اس نے حرام ٹھہرایا وہ حرام ہے اور جس کے متعلق خاموشی اختیار کی وہ معاف ہے۔ ‘‘[1] درج بالا اصول اور حدیث کے پیش نظر سوال میں ذکر کردہ معاملہ جائز ہے کیونکہ اس کے حرام یا ناجائز ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ایسی شرط ہے جس کے پیش نظر اسے حرام قرار دیا جائے ۔ ہاں نقصان ہونے کی صورت میں پرورش اور دیکھ بھال کرنے والے پر کوئی جرمانہ یا تاوان نہ ڈالا جائے، اس کی محنت کے ضیاع کو ہی کافی خیال کیا جائے۔ (واللہ اعلم) کمیشن پر کام کرنا سوال: میں لو گوں کی اشیا اجرت لے کر فروخت کر تاہوں ، کیا شریعت میں اس طرح کا کاروبارجائز ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیشن پر مال فروخت کرنا جائز نہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔ جواب: طے شدہ اجرت پر کسی کا مال فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ فریقین راضی ہوں اور کسی کے ساتھ دھوکہ ، فراڈ اور کذب بیانی نہ کی جائے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’دلالی کی اجارت لینا‘‘[2]
Flag Counter