Maktaba Wahhabi

269 - 452
’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشہ داروں کے لیے ہے۔ ‘‘[1]واضح رہے کہ بھتیجے اپنی بہنوں یعنی میت کی بھتیجیوں کو عصبہ نہیں بنا تے ، علم فرائض کی رو سے صرف چار حضرات اپنی بہنوں کو عصبہ بنا تے ہیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنی بہن کو عصبہ نہیں بنائے گا۔ 1 بیٹا، میت کی بیٹی کو عصبہ بنا تا ہے۔ 2پوتا: میت کی پوتی کو عصبہ بنا تا ہے ۔ 3حقیقی بھائی کی موجودگی میں میت کی حقیقی بہن عصبہ ہو گی۔ 4میت کا پدری بھائی بھی میت کی پدری بہن کو عصبہ بنا ئے گا۔ میت کا بھتیجا خود عصبہ بن سکتا ہے لیکن وہ اپنی بہن یعنی میت کی بھتیجی کو عصبہ نہیں بنائے گا ، اسی طرح چچا خود عصبہ بن سکتا ہے لیکن وہ اپنی بہن یعنی میت کی پھو پھی کو عصبہ نہیں بنائے گا ، بنابریں صورت مسؤلہ میں میت کے دونوں بھتیجے تو ترکہ سے حصہ لیں گے لیکن میت کی بھتیجیاں محروم ہوں گی، چونکہ کل ترکہ ایک لاکھ روپے صرف ہے اس لیے نصف یعنی پچاس ہزار خاوند کو ملیں گے اور باقی پچاس ہزار دونوں بھتیجے آپس میں پچیس پچیس ہزار لیں گے۔ (واللہ اعلم) وراثت کا مسئلہ سوال:ایک آدمی فوت ہوا، اس کی دو بیٹیاں اور ایک بہن ہے، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا، کیا بہن کو حصہ دیا جائے گا یا مقررہ حصہ بیٹیوں کو دینے کے بعد باقی ترکہ بھی ان بیٹیوں پر رد کر دیا جائے گا، قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے ۔ جواب: بشرط صحت سوال کل ترکہ سے بیٹیوں کو دو تہائی دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ ‘‘[2] اس آیت کریمہ میں اگر چہ دو سے زیادہ لڑکیوں کا دو تہائی حصہ بیان ہوا ہے تاہم اگر دو لڑکیاں ہیں تو ان کے لیے بھی دو تہائی ہے ، جیسا کہ اس آیت کے شان نزول سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کی دو لڑکیاں تھیں مگر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے مال پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لڑکیوں کو اس آیت کے پیش نظر دو تہائی دلوایا تھا۔[3] علاوہ ازیں اس سورت کے آخر میں ہے کہ اگر مر نے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہیں تو ان کے لیے کل مال سے دو تہائی ہے۔[4] لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہیں تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی کی وارث ہوں گی، بہر حال اگر میت کی دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں انہیں دو تہائی دیا جا تا ہے۔ صورت مسؤلہ میں بیٹیوں کامقررہ حصہ ۳/۲ نکال کر باقی ۳/۱ بہن کو دیا جائے گا کیونکہ بہن، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ مع الغیر ہو تی ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ بہنیں ، بیٹیوں کے ہمراہ بطور عصبہ وراثت پاتی ہیں۔[5]اس کے تحت انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے کہ انھوں نے ایک بیٹی کو نصف، پوتی کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ بہن کو دیا تھا۔ [6]
Flag Counter