Maktaba Wahhabi

271 - 452
ہوں گے ، ان میں سے آٹھواں یعنی تین حصے بیوی کو ، آدھا یعنی بارہ حصے بیٹی کو اور باقی نو حصے پوتے کو مل جائیں گے۔ یہ تقسیم اس صورت میں ہو گی جب صاحب جائیداد کی وفات کے وقت اس کے مذکورہ بالا ورثا زندہ ہوں ، اگر کوئی رشتہ دار اس کی زندگی میں فوت ہو گیا تو وہ خو د بخود اسکی جائیداد سے محروم ہو جائے گا۔ (واللہ اعلم) مسئلہ وراثت سوال:میرے والد صاحب فوت ہوئے تو ان کے دو بیٹے زندہ تھے ، اور ایک بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا، فوت ہو نے والے بیٹے کے دو بیٹے یعنی مرحوم کے دو پوتے ہیں، میرے والد نے ان کے حق میں وصیت کی کہ انہیں کل جائیداد سے تیسرا حصہ دیا جائے، میری والدہ بھی زندہ ہے، مرحوم کی چوبیس بیگہ زمین شرعی طور پر کیسے تقسیم کی جائے ، قرآن و سنت کی روشنی کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب: بشرطِ صحت سوال صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے وصیت کا اجرا ہو گا جو مرحوم کی دو پو توں کے لیے ہے، کیونکہ قرآن کریم کے مطابق تقسیم میراث سے پہلے قرض کی ادائیگی اور وصیت کا نفاذ ضروری ہو تاہے، مرحوم کی چوبیس بیگہ زمین ہے اس کا تیسرا حصہ آٹھ بیگے مرحوم کے دونو ں پو توں کے لیے ہوں گی باقی سولہ بیگوں میں سے آٹھواں حصہ یعنی دو بیگے اس کی بیوہ کے لیے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر تمہاری اولاد ہے تو پھر ان بیویوں کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ‘‘[1] بیوہ کا حصہ نکالنے کے بعد جو باقی بچے گا وہ دو بیٹوں کو برابر تقسیم کر دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’مقررہ حصہ والوں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ داروں کو دیا جائے ۔‘‘[2]سات ، سات بیگے دونوں بیٹوں کو مل جائیں گے۔ (واللہ اعلم ) بھتیجے کے لیے وصیت کرنا سوال:میرا ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں ، میں صاحبِ جائیداد ہوں، یتیم بھتیجا میرے پاس رہتا ہے اور میری خدمت بھی کرتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی جائیداد میں سے ۳/۱ اس کے نام کر دوں کہ میرے مر نے کے بعد وہ اس کا مالک ہو گا، کیا ایسا کرنا شرعی طور پر درست ہے؟ جواب: میراث کے احکام نازل ہو نے سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لے وصیت کرنا ضروری تھا، جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۸۰ میں ہے، احکام مواریث کے نازل ہو نے کے بعد یہ وصیت منسوخ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’اللہ تعالیٰ نے اب ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا کسی وار ث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔ ‘‘ البتہ ایسے رشتہ داروں کے لے وصیت کی جا سکتی ہے جو شرعی طور پر وارث نہ ہوں، اسی طرح راہ خیر میں خرچ کر نے کے لیے بھی وصیت کی جا سکتی ہے لیکن یہ وصیت زیادہ سے زیادہ ایک تہائی جائیداد تک کی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نا جائز ہے
Flag Counter