Maktaba Wahhabi

280 - 452
منہا کر نے کی چنداں ضرورت نہیں اور ایسا کرنا شرعاًجائز بھی نہیں ۔ چنانچہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی، اپنی دو بچیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئی اور عرض کیا :’’یا رسول اللہ !ئی دونوں بچیاں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں اور ان کا باپ آپ کے ہمراہ غزوہ احد میں شہید ہو گیا ہے اور اس کےبھائی یعنی بیٹیوں کے چچا نے سعد کا سارا مال اپنے قبضہ میں لے لیا ہے جبکہ بیٹیوں کا نکاح مال کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :اس کے متعلق اللہ ضرور کوئی فیصلہ کرے گا چنانچہ اس کے پس منظر میں آیت میراث نازل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چچا کی طرف پیغام بھیجا اور اسے فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو ۳/۲ ، ان کی ماں کو ۸/۱ دو۔ اور جو باقی بچے وہ تیرا ہے ۔[1] اس حدیث سے معلوم ہو تاہے کہ بیٹیوں کی شادی پر اخراجات ہو تے ہیں کیونکہ سعد کی بیوی نے کہا تھا کہ مال کے بغیر بچیوں کا نکاح نہیں ہو سکتا، چنانچہ ایک روایت میں ہے : سعد کی بیوی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مال کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہوتا۔ ‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انکار نہیں فرمایا ، یہ نہیں کہا کہ شادی پر خرچ کر نے کی ضرورت نہیں اور تم فی سبیل اللہ کسی سے ان کا نکاح کر دو، بلکہ آپ نے خاموش رہ کر اس کی تائید فرمائی۔ اس حدیث سے صورت مسؤلہ کا حل بھی معلوم ہو ا کہ بچوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات ترکہ سے منہا نہیں کیے جائیں گے بلکہ ان کا پور ا حصہ نہیں دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچے کو دودھ پلا نے کے اخراجات باپ کے ذمے ڈالے ہیں، اس ضمن میں فرمایا :’’وارث پر بھی اس جیسی ذمہ داری ہے۔’‘[3] یعنی باپ کے فوت ہو جا نے کے بعد اخراجات بر داشت کر نے کی ذمہ داری اس کے وارثوں کی ہے اور یہ بچہ بھی ان وارثوں میں سے ہے ، اس لیے ترکہ سے اخراجات منہا نہیں کیے جائیں گے ۔ لہذا باپ اپنی زندگی میں اولاد کے اخراجات بر داشت کر نے کا پابند تھا، مرنے کے بعد دیگر شرعی پابندیوں کے ساتھ بچوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات کی پابندی بھی اس سے اٹھا لی گئی ہے ، اس لیے تقدیر پر راضی رہتے ہوئے اس کے ترکہ کے ساتھ شریعت کے مطابق معاملہ کیا جائے، اس کے علاوہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ (واللہ اعلم ) وارث کے لیے وصیت کرنا سوال:میرے والد نے فوت ہو نے سے قبل میرے بڑے بھائی کے لیے وصیت کی کہ رہائشی مکان اسے دیا جائے اور باقی جائیداد تمام بھائی تقسیم کر لیں، کیا ایساکرنا جائزہے؟ جواب: وصیت کے جائز ہو نے کے لیے تین اصول حسب ذیل ہیں۔ 1وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو ۔ 2وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو ۔3وصیت کسی شرعی وارث کے لیے نہ ہو۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ وصیت بڑے بیٹے کے لیے ہے جو مرحوم کا وارث ہے لہذا یہ وصیت جائز نہیں، یہ کالعدم ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
Flag Counter