Maktaba Wahhabi

29 - 452
مقدمہ الحمد للّٰه رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ و اخوانہ اجمعین و بعد: قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر خود سوال کیا ہے پھر خود ہی اس کا قطعی جواب دیا ہے۔ قرآن کریم میں بیان کردہ اس قسم کے جوابات کو ہم فتاویٰ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ فتویٰ کی عظمت ،شان اور اس کی قدر ومنزلت کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فتویٰ کی نسبت اپنی طرف کی ہے ،ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ يَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَآءِ، قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ﴾ ’’لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘[1] دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿يَسْتَفْتُوْنَكَ، قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ﴾ ’’لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘[2] لغوی اعتبار سے لفظ فتویٰ’’ الفتوّہ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی کرم و سخاوت اور طاقت و زور آوری ہے، چونکہ مفتی اپنے وقت و علم کی سخاوت کرتے ہوئے اپنی عالمانہ قوت کو کام میں لا کرفتویٰ دیتا ہے، اس لیے اس کے جواب کو فتویٰ کہا جاتا ہے۔ کچھ اہل لغت کا کہنا ہے کہ فتویٰ در اصل ’’الفتی‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی مضبوط اور قوی کے ہیں، چونکہ مفتی پیش آمدہ مسئلے کے جواب میں اپنے دلائل سے دینی مسائل کو قوت مہیا کرتا ہے، اس لیے مفتی کے جواب کو فتویٰ کا نام دیا جاتا ہے ۔ شرعی طور پر کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ کسی مسئلے کو بیان کرنا فتویٰ کہلاتا ہے اور فتویٰ دینے والے کو مفتی کہا جاتا ہے۔ علامہ شاطبی مفتی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مفتی، امت میں رسول اللہ کا نائب اور قائم مقام ہے کیونکہ علماء ، انبیاء کے وارث ہیں اور حضرات انبیاءعلیھم السلام نے اپنے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ورثے میں علم و حکمت کو چھوڑا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter