Maktaba Wahhabi

293 - 452
حصہ بیوہ کو دیا جائے اور باقی سات حصوں سے دو حصے فی لڑکے اور ایک ایک لڑکی کو دیا جائے چونکہ ترکہ اسی ہزا ر روپے ہے اسے آٹھ پر تقسیم کیا جائے تو ایک حصہ دس ہزار بنتا ہے، یہ بیوہ کا حق ہے اسے دیا جائے اور باقی ستر ہزار میں بیس بیس ہزار لڑکوں کو اور دس ، دس ہزار لڑکیوں کو دیاجائے گا۔ (واللہ اعلم) سوال:میرا ایک عزیز فوت ہوا ، اس کی بیوی، دو بیٹیاں اور پانچ بھائی ہیں، اس کی بیوی نے تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا ہے، شریعت کے مطابق ہر وارث کو کیا حصہ ملتا ہے ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دے کر ممنون فرمائیں۔ جواب: اگر مرنےوالے کے ذمے کوئی قرض وغیرہ نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کی بیوی کل جائیداد سے آٹھویں حصہ کی حقدار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر مرنے والے کی اولاد ہے تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔ [1] اس کی بیٹیوں کو کل جائیداد سے دو تہائی دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر لڑکیاں (دو یا )دو سے زیادہ ہیں تو انہیں کل ترکہ سے ۳/۲ دیا جائے۔[2] بیوی اور بیٹیوں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اس کے حقدار میت کے بھائی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، مقرر حصہ لینے والوں کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے۔ [3]سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کو چوبیس حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ ان میں سے تین حصے بیوی کو ، سولہ حصے بیٹیوں کو اور باقی پانچ حصے بھائیوں کو دے دیے جائیں، اس طرح کل جائیداد کو تقسیم کیا جائے بیوی کا کل جائیداد پر قبضہ کر لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم ) سوال:ایک شخص نے کسی لڑکی سے شادی کی، لیکن جنسی تعلقات قائم ہونے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گیا، اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے، اس نے ڈھیروں مال اپنے ترکہ میں چھوڑا ہے۔ اس کے متعلق کیا شرعی حکم ہے ۔ جواب: عقد صحیح سے کوئی بھی عورت اپنے خاوند کی بیوی بن جا تی ہے، خواہ جنسی ملاپ نہ ہوا ہو ، اس پر عدت وفات بھی ہے یعنی وہ چار ماہ دس دن تک سوگ میں رہے گی، لہذا جب یہ عقد صحیح ہے اور اس کا خاوند فوت ہو گیا ہے تو اسے کل جائیداد سے چوتھائی حصہ دیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور جو مال تم چھوڑ مرو، اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کا اس میں چوتھا حصہ ہے۔ ‘‘[4]اس کی جائیداد کے چار حصے کر لیے جائیں، ان میں سے ایک حصہ اس کی بیوی کو دے دیا جائے، پھر اس کے دیگر ورثا کے متعلق تحقیق کر لی جائے، اگر باپ کی طرف سے کوئی بھی رشتہ دار موجود ہو جو عصبہ بن سکتا ہے تو باقی تین حصے اسے ادا کر دیے جائیں، اگر چہ وہ دور کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی بھی رشتہ دار معلوم نہ ہو تو باقی رقم اسلامی بیت المال میں جمع کرا دی جائے بشر طیکہ و ہ بیت المال صحیح اسلامی حکومت کے زیر نگرانی ہو۔ بصورت دیگر اس رقم کو مرحوم کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم ) ناجائز وصیت کالعدم ہے سوال:میرے والد نے اپنی جائیداد ہمارے بڑے بھائی کو دینے کی وصیت کی ہے جبکہ ہماری بہنیں بھی موجود ہیں، اب وہ فوت ہو چکے ہیں، کیا اس پر عمل کیا جائے گا یا شرعی ضابطہ کے مطابق اسے تقسیم کرنا ہو گا، پسماندگان میں سے ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں، ہماری والدہ پہلے ہی وفات پا چکی ہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری الجھن دور کریں۔
Flag Counter