Maktaba Wahhabi

309 - 452
رضاعی بہن سے شادی سوال:میں نے اپنی چچا زاد کے ساتھ شادی کی ، شب زفاف کے وقت باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ میری رضاعی بہن ہے، اب میرے لئے کیا حکم ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں؟ جواب: اگر واقعی یہ بات صحیح ہے کہ سائل نے اپنی بیوی کے ہمراہ کسی عورت کا پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ دودھ پیا ہے اور دو سال کی عمر کے دوران پیا ہے تو پھر دونوں کے درمیان علیحدگی ضروری ہے کیونکہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے ابو اھاب کی بیٹی ام یحییٰ سے شادی کی ، شادی کے بعد ایک سیاہ فام عورت نے بتایا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے پہلے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی مجھے کسی دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا ہے۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ طیبہ گئے اور اپنا ماجرا بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب یہ بات کہی گئی ہے تو اسے تسلیم کر لو۔‘‘ چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو الگ کر دیا پھر اس نے کسی دوسرے مرد سے شادی کر لی۔[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی کے بعد بھی اگر رضاعت کا علم ہو جائے تو علیحدگی ضروری ہے کیونکہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ [2] چونکہ میاں بیوی دونوں کو شب زفاف میں خلوت میسر آچکی ہے، اس لئے بیوی اپنے حق مہر کی حقدار ہو گی۔ ( واللہ اعلم) تو مجھ پر حرام ہے سوال:ہمارا میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہوا تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ آئندہ کے لئے تو مجھ پر حرام ہے، آج کے بعد تو میرے لئے حلال نہیں ہے، یہ الفاظ اس نے بار بار دھرائے ، شرعی طور پر اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: طلاق دینے کا اختیار خاوند کو ہے، عورت کی طرف سے واقع نہیں ہوتی ، خواہ وہ خود کو کتنی ہی طلاقیں دے ڈالے یا خود کو اپنے خاوند پر حرام کرلے۔ صورت مسؤلہ میں بیوی نے جو کچھ کہا ہے، اس سے طلاق وغیرہ واقع نہیں ہو گی ، وہ سائل کی بد ستور بیوی ہی رہے گی ۔ البتہ اس کے ذمے قسم کا کفارہ لازم ہو گا کیونکہ کسی چیز کو خود پر حرام کر لینے سے قسم کا کفارہ پڑتا ہے جیسا کہ سورۃ تحریم کے آغاز میں ہے اور قسم کا کفارہ حسب ذیل ہے: ’’ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلایا جائے یا انہیں کپڑے پہنائے جائیں، یا ایک غلام آزاد کیا جائے اور جو اِن تین امور میں سے کسی ایک کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔‘‘ بہر حال اس حوالہ سے ہم میاں بیوی دونوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ طلاق و قسم کو کھیل اور تماشہ نہ بنایا جائے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ، دنیا کے چند دن گزارنے کی کوشش کی جائے۔ ( واللہ اعلم)
Flag Counter