Maktaba Wahhabi

324 - 452
نہ ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمایں؟ جواب: شریعت اسلامیہ میں نکاح ، اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے اور زندگی کا مضبوط بندھن ہے، اسے خوب غور و خوض اور سوچ و بچار کے بعد سر انجام دینا چاہیے۔ یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں کہ خراب ہونے کے بعد دوسرا پھر تیسرا لگا دیا جائے اور دنیاوی مفاد و ذاتی اغراض کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ صورت مسؤلہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ا نتہائی جلد بازی میں یہ کام کیا گیا ہے، تاہم نکاح کے بعد ہمیں چاہیے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے شریعت کی خلاف ورزی ہو پھر ہماری شرمندگی کا بھی باعث بنے۔ لڑکی چونکہ دو ماہ سے حاملہ ہے اور اسے طلاق مل گئی ہے، اب عقد ثانی کے لئے وضع حمل کا انتظار کرنا ہو گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا حمل وضع ہو جائے۔‘‘[1] اب اپنی سہولت کے لئے حمل کو ضائع کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے، اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا بلکہ قرآن کریم کی اس سلسلہ میں ایک واضح ہدایت ہے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’ مطلقہ عورتوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہے اسے چھپائیں، انہیں ہر گز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔‘‘ [2] اس سے معلوم ہوا کہ مادر رحم میں خلق شدہ بچے کو چھپانے کا حکم نہیں ، جب چھپانے کا حکم نہیں تو اسے ضائع ؎کر دینے کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے، بہتر ہے کہ صلح کی کوئی صورت پیدا کی جائے چونکہ عدت کا دورانیہ خاصہ طویل ہے اس لئے شاید کوئی راستہ نکل آئے، اس سلسلہ میں والدین کی سوچ کو کسی بھی صورت میں درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( واللہ اعلم) گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج سوال:ہمارے ہاں اکثر لوگ گرین کارڈ کے حصول کے لئے مغرب ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر کاغذی طور پر ایسی عورت سے شادی کر لیتے ہیں جسے وہاں کی شہریت حاصل ہوتی ہے تاکہ نکاح کرنے والے کو گرین کارڈ کے حصول میں سہولت رہے کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ جواب: اسلام میں نکاح کے جو مقاصد ہیں وہ متعین ہیں، ان میں سر فہرست حسن معاشرت ہے اور ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھنا ہے، صورت مسؤلہ میں نکاح کرتے وقت اس طرح کے مقاصد پیش نظر نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لئے ایسے اقدامات جائز نہیں ہیں جن کی شریعت میں گنجائش نہ ہو۔ گرین کارڈ کے حصول کے لئے اس طرح کا فریب کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ نیز اس میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ عورت ماہانہ ’’وظیفہ ‘‘ کے لالچ میں کئی ایک لوگوں سے نکاح کا ڈھونگ رچا لیتی ہے تاکہ اسے وظیفہ ملتا رہے۔ بعض ایسے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں کہ اس طرح کا نکاح کرنے والے ایک دوسرے سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں اور انہوں نے نکاح کے بعد ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا محض کاغذی کارروائی کی ہوتی ہے جو انٹر نیٹ پر مکمل کر لی جاتی ہے۔ نکاح کرنے والے کا مقصد صرف گرین کارڈ کا حصول اور عورت کا مقصد صرف ماہانہ وظیفہ حاصل کرنا ہے، حسن معاشرت یا خاندان کی بنیاد کا دُور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ لہٰذا ہمارے رجحان کے مطابق اس طرح کا دھندا شرعاً نا جائز ہے، اس سے
Flag Counter