Maktaba Wahhabi

333 - 452
دعوت دینا ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس طرح کا ذہن رکھتے ہیں کہ کزن میرج بیماریوں کا پیش خیمہ ہے اور ہمارے زرخرید میڈیا نے بھی اس قسم کا شور مچا رکھا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ ہر گز انسانوں کے لئے نقصان دہ نہیں اور جو چیزیں اسلام نے حرام کی ہیں وہ کسی صورت میں ہمارے لئے فائدہ مند نہیں بن سکتیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ہمیں قرآن وحدیث سے راہنمائی لینی چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ اے نبی ! ہم نے تمہارے لئے حلال کر دیں تمہای وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں اور تمہاری وہ چچا زاد ، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے۔[1] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کزن میرج کی زد میں جتنے بھی رشتے آتے ہیں ، ان کا نام لے کر وضاحت کی ہے کہ وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ اگر طبی نقطہ نظر سے ان میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کر دیتے اور آپ کی امت پر بھی پابندی لگا دیتے۔ لیکن اسلام نے ایسا کرنے کے بجائے ان رشتوں کی ترغیب دی ہے اور جن میں کوئی اخلاقی یا روحانی قسم کا خطرہ تھا تو ان پر پابندی لگائی ہے۔ کزن میرج کی وجہ سے جو خدشات ظاہر کئے جاتے ہیں ان کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض موروثی امراض والدین سے اولاد میں منتقل ہو جائیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک نسل کسی مرض میں مبتلا رہی ہے تو اسی گھرانے کی کئی نسلیں بالکل اس مرض سے محفوظ رہتی ہیں۔ بہر حال یہ لازمی نہیں کہ کزن میرج ہی بیماریوں کا سبب ہے بلکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ بیماریاں اللہ کی طرف سے ہیں وہ جس کو چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے، کبھی بیماری کا کوئی سبب ہوتا ہے اور کبھی بغیر سبب کے بھی بیماری لگ جاتی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق کزن میرج بالکل درست ہے اور ایسا کرنے سے بیمار اولاد پیدا ہونا ضروری نہیں۔ ( واللہ اعلم) منگنی کا شرعی حکم سوال:ہمارے ہاں کچھ علماء کا خیال ہے کہ منگنی ، نکاح کے حکم میں ہے کیونکہ اس میں رشتہ دینے اور لینے کا اقرار ہوتا ہے جسے شرعی اصطلاح میں ایجاب و قبول کہا جاتا ہے، اس کے متعلق شریعت کا موقف کیا ہے؟ جواب: منگنی نکاح نہیں،بلکہ نکاح کا وعدہ ہوتا ہے یعنی فریقین یہ عہد و پیمان کرتے ہیں کہ فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کیا جائے گا، اس قول و اقرار کو پوراکرنا اخلاقی فرض سمجھا جائے، اگر کوئی معقول عذر ہو تو اس عہد و پیمان کو توڑا بھی جا سکتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ منگنی کے بعد فریقین میں سے کسی ایک پر دوسرے کا کوئی عیب ظاہر ہو جائے جو پہلے معلوم نہ تھا یا اسے دانستہ چھپایا گیا تھا تو ایسے حالات میں قول و قرار کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن کسی معقول وجہ کے بغیر اسے ختم کر دینا شرعاً جائز نہیں۔ یہ بھی دوسری بد عہدیوں کی طرح ایک بد عہدی ہے جس کے متعلق اللہ کے ہاں باز پرس ہو گی۔ بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق منگنی نکاح نہیں کیونکہ اس میں ایجاب و قبول اور دیگر شرائط نکاح مفقود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر منگنی کے بعد لڑکا فوت ہو جائے تو لڑکی اس کی وارث نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کے ذمے کوئی عدت وغیرہ ہے کیونکہ وہ فوت
Flag Counter