Maktaba Wahhabi

334 - 452
ہونے والے کی بیوی نہیں بلکہ اس کے لئے ابھی اجنبی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیوی کے لئے عقد نکاح کا ہونا ضروری ہے جو ابھی تک نہیں ہوا، ابھی تک تو نکاح کرنے پر اتفاق ہی ہوا تھا صرف اتنی چیز سے نکاح نہیں ہوتا ، اس کے لئے دیگر لوازمات بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کے اندازِ بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ منگنی اور نکاح میں فرق ہے کیونکہ اس میں دوران عدت خطبۃ النساء اور عقدۃ النکاح کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تم ایام عدت میں اشارہ کے طور پر عورتوں کو پیغام نکاح بھیجو یا نکاح کی خواہش کو اپنے دل میں مخفی رکھو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ آگے فرمایا: ’’ اور جب تک عدت پوری نہ ہو جائے تم نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرو۔‘‘[1] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبۃ النساء اور عقدۃ النکاح دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف منگنی کر دینے سے نکاح نہیں ہوتا، یہ بات ہمارے ہاں عرف کے بھی خلاف ہے۔ اہل علم میں سے کسی نے بھی اس قسم کی بات نہیں کہی کہ منگنی سے نکاح ہو جاتا ہے۔ ( واللہ اعلم) لڑکی والوں کی طرف سے نکاح کی پیشکش سوال:ہمارے معاشرہ میں لڑکی کی شادی کے معاملہ میں لڑکے والوں کی طرف سے پہل کا انتظار کیا جاتا ہے، چنانچہ اس انتظار میں کچھ لڑکیاں جوانی کی حد کو عبور کر جاتی ہیں، اس کے متعلق شریعت میں کیا ہدایات ہیں؟ جواب: ہمارے معاشرے میں جو صورت رائج ہے یہ کسی حد تک فطرت کے ہم آہنگ ہے یعنی لڑکے والوں کی طرف سے ابتدا ہوتی ہے۔ وہ اپنی طلب کا اظہار پہلے کرتے ہیں، لیکن اسے حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی مناسب رشتہ نظر آتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ لڑکی والا خود پیغام دینے میں ابتدا کرے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ آدمی کا اہل خیر کو اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ پیش کرنا ۔‘‘ [2] اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جب ان کی لخت جگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں تو انہوں نے خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بیٹی کا رشتہ پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ میں اس سلسلہ میں غور و فکر کر کے آپ کو آگاہ کروں گا، اس کے بعد انہوں نے ’’ نہ‘‘ میں جواب دے دیا۔ پھر انہوں نے ان کا رشتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش کیا تو وہ خاموش رہے، انہوں نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر کے اس رویے سے دکھ ہوا تاہم چند دنوں کے بعد رسول اللہ کی طرف سے پیغام نکاح آیا تو انھوں نے ان سے بیٹی کا رشتہ کر دیا۔ نکاح کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ آپ کی بیٹی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا تھا، اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشا نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر آپ اسے ترک کر دیتے تو میں ضرور اس رشتہ کو قبول کر لیتا۔ [3] اس طویل حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکی والے بھی رشتے کے سلسلہ میں پہل کر سکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اگر مناسب رشتہ نظر آئے تو لڑکے والوں کی طرف سے پہل کا انتظار نہ کریں بلکہ خود رشتے کی پیشکش کر دیں، اس میں اللہ کی طرف سے خیر و برکت ہو
Flag Counter