Maktaba Wahhabi

336 - 452
وصول کر لیا اور وہ اس قدر ہے کہ نصاب کی مقدار یا اس سے زائد ہے تو سال گزرنے کے بعد وہ خود اس سے زکوٰۃ ادا کرے گی۔ اگر شادی کے موقع پر اس نے حق مہر وصول نہیں کیا بلکہ وہ مؤجل ہے تو اس صورت میں اس کی حیثیت قرض کی ہو گی۔ اگر اس کا خاوند صاحب حیثیت ہے اور فراخدلی کے ساتھ ادائیگی پر آمادہ ہے تو بھی ہر سال اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسروں کے ذمے واجب الاداء قرض سے زکوٰۃ دی جاتی ہے اور اگر خاوند تنگ دست ہے اور اس سے حق مہر ملنے کی اُمید نہیں، یا وہ مالدار ہے لیکن تنگ دلی اور بخل کی وجہ سے وہ حق مہر دینے پر آمادہ نظر نہیں آتا تو اس صورت میں عورت ایسے حق مہر سے زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری نہیں، ہاں جس وقت اسے حق مہر کی رقم یا زیور مل جائے اس وقت سابقہ ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی ، اس کے بعد حسب معمول زکوٰۃ دی جائے گی۔ اگر عورت نے نکاح کے موقع پر حق مہر وصول کر لیا لیکن رخصتی سے قبل ہی اسے طلاق مل گئی اس صورت میں وہ نصف مہر کی حقدار ہے ، جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۲۷ میں صراحت ہےہے ، اسے اس نصف حق مہر سے زکوٰۃ دینا ہو گی اور باقی نصف سے اس کا خاوند زکوٰۃ ادا کرے گا کیونکہ اس صورت میں وہ نصف حق مہر کی مالک ہے۔ حق مہر سے زکوٰۃ کون ادا کرے گا ؟ چونکہ اس کی مالک بیوی ہے لہٰذا اصولی طور پر وہی اس سے زکوٰۃ ادا کرنے کا بندوبست کرے گی، ہاں اگر خاوند خوشی سے اس کی زکوٰۃ اپنے پاس سے ادا کرتا ہے تو اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ ( واللہ اعلم) قبیلہ ’’جون ‘‘کی عورت کا نکاح سوال:غالباً بخاری میں ہے کہ ایک جونیہ عورت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا، جب آپ اس عورت کے پاس گئے تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی، اس کے بعد آپ نے اسے کچھ دے دلا کر واپس کر دیا ، اس واقعہ کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ہدف بنایا جاتا ہے ، اس واقعہ کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں؟ جواب: یہ واقعہ بخاری اور مسلم حدیث کی دونوں کتابوں میں مروی ہے ، تمام روایات کی روشنی میں اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ’’ قبیلہ جون کا ایک سردار مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے قبیلے میں ایک عورت بیوہ ہو گئی ہے اور وہ آپ سے نکاح پر آمادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات معلوم کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنے کی رضا مندی فرما دی اور نکاح بھی کر لیا پھر اس کے وطن سے مدینہ طیبہ بلوالیا، جو صاحب اسے لے کر آئے تھے انہوں نے ’’بنو ساعدہ‘‘ کی ایک حویلی میں ٹھہرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی، آپ وہاں تشریف لے گئے اور منکوحہ ہونے کی حیثیت سے اس کے کمرے میں داخل ہوئے اور جب اس سے کوئی بات کی تو اس نے یہ کلمہ کہا: ’’ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں‘‘ یہ سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے ایک ایسی ذات کی پناہ مانگی ہے جو پناہ مانگنے اور پناہ دینے کے قابل ہے، چنانچہ اس کے بعد آپ نے اسے طلاق دے دی اور کپڑوں کے جوڑے دے کر واپس اس کے گھر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ ‘‘[1] اب رہا یہ سوال کہ اس خاتون نے پناہ کیوں مانگی؟ اس کے متعلق بعض ناقابل اعتبار روایات میں کہا گیا ہے کہ کچھ ازواج مطہرات نے اسے سکھا دیا تھا کہ ’’ أعوذ باللّٰه منک ‘‘ کا کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند ہے، ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ یہ کلمہ سن
Flag Counter