Maktaba Wahhabi

348 - 452
ان آثار سے معلوم ہوتا ہےکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گم شدہ خاوند کی بیوی کے لئے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جاسکتا ہے موجودہ احوال و ظروف اور ذرائع مواصلات کے پیش نظر یہ موقف انتہائی قرین قیاس ہے۔ ہمارے نزدیک بھی ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے بصورت دیگر قدیم فتویٰ چار سال والا تو اپنی جگہ جمہور علمائے اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کے لئے لازم ہو چکاہے ، اس بناء پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا خاوند ہے جو گم ہو چکا ہے۔ اب دفع مضرت کے لئے عدالت ، خاوند کے قائم مقام ہو گی اور اس نکاح کو فسخ قرار دینے کی مجاز ہو گی ، جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت فیملی کورٹ کی طرف رجوع کرے ، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ہمارے ہان بعض عورتیں مدت دراز تک انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں معاملہ لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر آگے نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام نکاح انتہائی محل نظر ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا تو آپ نے جواب دیا: ’’ اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزارے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔‘‘[1] اس بنا پر ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہو جائے تو وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی اس کا خاوند گم شدہ ہے تو وہ اسے ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے گی۔ اگر اس مدت تک اس کا شوہر نہ آئے تو ایک سال کے اختتام پر عدالت فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن گزارے گی ۔ اس کےبعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہو گی۔ اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو کر صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے اس کے گم شدہ خاوند کے متعلق فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت مجاز کا فیصلہ ہی تصور ہو گا۔ ( واللہ اعلم ) پدری دو بہنوں سے نکاح سوال:ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، ہر ایک بیوی سے ایک ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ کیا ممکن ہے کہ دونوں لڑکیوں کو کوئی اپنے عقد نکاح میں جمع کرے کیونکہ وہ حقیقی بہنیں نہیں ہیں جنہیں جمع کرنے کی ممانعت ہے؟ جواب: قرآن کریم نے دو بہنوں کو بیک وقت اپنے عقد نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور ( حرام ہے) کہ تم دونوں بہنوں کو جمع کرو۔‘‘[2] نیز ایک حدیث میں ہے کہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں، آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جسے چاہو طلاق دے دو۔‘‘ [3] قرآنی آیت اور حدیث کی رو سے ہر قسم کی دو بہنوں کو عقد نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، خواہ وہ ایک باپ اور ماں سے ہوں یا
Flag Counter