Maktaba Wahhabi

366 - 452
ہوئے کہتے ہیں کہ گوشت کے دو حصے کئے جائیں، نصف اپنے لئے اور نصف صدقہ کے لئے۔[1] لیکن در حقیقت ان آیات سے اس طرح قربانی کے گوشت کو دو یاتین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا بلکہ ان میں مطلقاً کھانے کا حکم ہے، اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہیے بلکہ قربانی کا گوشت سارا بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ [2] اور جتنا چاہے خود بھی کھا سکتا ہے اور اسے ذخیرہ بھی کر سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم) قربانی اور منکرین حدیث سوال:منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی صرف حجاج کرام کے لئے ہے، عام لوگ قربانی کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اس اعتراض کا کیا جواب ہے ، تفصیل سے آگاہ فرمائیں؟ جواب: اس میں شک نہیں کہ قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارےلیے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بنا دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر و برکت ہے، اس لئے تم انہیں کھڑا کر کے اللہ کا نام لو پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو اسے خود بھی کھاؤ ، سوال سے رُکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔‘‘[3] اس آیت میں قربانی کے اونٹوں کا ذکر مسائل حج میں بیان ہوا ہے ، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قربانی صرف حجاج کرام کے لئے ہے، دوسرے مسلمانون کے لئے ضروری نہیں، کیونکہ قربانی کا ذکردوسرے مقامات پر مطلقاً بھی آیا ہے جہاں حج وغیرہ کا ذکر نہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ [4] اس آیت کریمہ کی تفسیر و تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منصب کے لحاظ سے کی ہے کہ آپ دس سال مدینہ طیبہ میں رہے اور قربانی کرتے رہے ، دوسرے مسلمانوں کو بھی قربانی دینے کی ترغیب دلائی اور قربانی کے احکام و مسائل بیان فرمائے، ان میں سے ایک مسئلہ درج ذیل ہے: ’’ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی کی وہ اس کی جگہ پر اور قربانی کرے اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح نہیں کی وہ نماز کے بعد قربانی کرے۔ ‘‘[5] اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے نہیں بلکہ اس کا حکم ہر مسلمان کے لئے ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو کیونکہ حجاج کرام تو عید کی نماز نہیں پڑھتے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک جگہ پر یہود کے کردار کو بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے: ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے۔ ‘‘[6] اس آیت میں بھی قربانی کا ذکر ہے اور حاجیوں کے ساتھ اس کا کوئ تعلق نہیں ۔ بہر حال منکرین حدیث کا مذکورہ دعویٰ کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے ہے دوسرے مسلمانوں کے لئے نہیں، اس دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں۔ بلکہ قربانی کا حکم جس طرح حاجیوں
Flag Counter