Maktaba Wahhabi

387 - 452
تحفظ ہو، لوگوں کی نگاہوں سے بھی اوجھل رہے پھر مال و متاع کی حفاظت اور تعلقات زن و شوئی کے لئے بھی ’’ معقول رہائش‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق عورت کا یہ مطالبہ بے جا نہیں کہ اس کے لئے علیحدہ اور الگ رہائش کا بندوبست ہو، اگر وقتی طور پر ایسی رہائش ممکن نہیں تو گھر میں کسی الگ کمرے میں رہائش کا بندو بست کر دیا جائے تاکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ ہی بالغ افراد کے ساتھ خلوت کا خدشہ ہو، اگر گھر میں خاوند کے بالغ بھائی موجود ہیں تو معاملہ مزید نازک ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ تم عورتوں کے پاس جانے سے گریز کرو، ایک انصاری نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خاوند کے عزیز و اقارب کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کے عزیز و اقارب تو موت ہیں۔‘‘[1] اس حدیث کے پیش نظر ہم خاوند کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی اور بال بچوں کے لئے علیحدہ رہائش یا کم از کم الگ کمرے کا بندو بست کرے، اس میں خیر و برکت ہے لیکن اگر اس کے والدین بوڑھے ہیں اور اپنے بیٹے کے محتاج ہیں تو ہم اس کی بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنے والدین کا مقام دے کر ان کی خدمت کرے اور ان کی دعائیں لے۔ اگر ان سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس پر صبر کرے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت گزاری کے بدلے خیر کثیر سے نوازے گا۔ کوشش کی جائے کہ اپنے خاوند اور اس کے والدین کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور آرام دیا جائے۔ خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں برد باری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرے اور گاہے بگاہے اپنے والدین سے عرض کرتا رہے کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ محبت و پیار سے پیش آئیں اور اسے اپنی حقیقی بیٹی کا مقام دیں، اس سے حالات کے خوشگوار ہونے میں بہت مدد ملے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین! چھوٹی بچیوں کو غیر شرعی لباس پہنانا سوال:ہمارے ہاں خواتین چھوٹی بچیوں کو مختصر لباس پہنا دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ بچیاں مکمل لباس پہننے کی مکلف نہیں ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟ جواب: ہمارے رجحان کے مطابق خواتین کا یہ طریقہ درست نہیں ہے کیونکہ اگر بچیوں کو بچپن میں مختصر لباس پہننے کی عادت پختہ ہو گئی تو بڑی عمر میں انہیں مکمل لباس پہننے میں دشواری آسکتی ہے، اس لئے ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں کی بچپن میں صحیح تربیت کریں اور انہیں ایسا لباس پہنائیں جو شرع کے مطابق ہو جیسا کہ صحابیات کے متعلق احادیث میں ہے کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے کے لئے شیر خوار بچوں کو دن کے اوقات میں دودھ نہیں پلاتی تھیں بلکہ انھیں کھلونوں میں مصروف رکھتی تھیں تاکہ انہیں روزہ رکھنے کی عادت پڑ جائے۔[2] خواتین کو چاہیے کہ وہ اس پہلو کو نظر انداز نہ کریں اور بچیوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں۔ ( واللہ اعلم)
Flag Counter