Maktaba Wahhabi

388 - 452
قبلہ کی طرف تھوکنا سوال:ہمارے ہاں عام طور پر لوگ بے خیالی میں قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوک دیتے ہیں ، میں نے اس کے متعلق ایک عالم دین سے سخت وعید سنی تھی، اب یاد نہیں آرہا ۔ آپ اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں؟ جواب: قبلہ شریف ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہے ، اسی لئے بول و براز کے وقت اس طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے ۔ اسی طرح اس طرف منہ کر کے تھوکنا، بلغم پھینکنا بھی ناجائز ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکے گا، قیامت کے دن اسے اس انداز میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تھوک اس کے منہ پر ہو گا۔‘‘ [1] اگرچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں : ’’ قبلہ مسجد ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت ہے۔ [2] 1لیکن اسے اپنے عموم پر محمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، مسجد میں قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا اس کے گناہ میں مزید سنگینی کا باعث ہے۔ پھر دوران نماز یہ کام کرنا انتہائی برا اور گنوار پن کی علامت ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ اپنے رب سے مناجات اور راز و نیاز میں مصروف ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی دائیں جانب تھوکے کیونکہ اس کی دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے ، ہاں بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوکنے کی اجازت اس وقت ہے جب مسجد میں چٹائیاں یا قالین وغیرہ بچھا ہوا نہ ہو، اگر قالین وغیرہ بچھا ہے تو ایسی مجبوری کے وقت اپنے کپڑے میں تھوک کر اسے مسل دے ، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی قوم کی امامت کرائی تو اس نے دوران نماز قبلے کی طرف تھوک دیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے، آپ نے اسے منصب امامت سے معزول کر دیا اور فرمایا کہ تونے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دی ہے۔ [4] تھوک بلغم اور ناک کی آلائش نجس نہیں لیکن نظافت اور صفائی کے بالکل منافی ہیں۔ قبلہ، مساجد اور دیگر محترم مقامات کا ادب و احترام انتہائی ضروری ہے، ان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ لہٰذا ہمارے رجحان کے مطابق قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا خلاف ادب و احترام ہے بلکہ مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر اس پر سخت وعید آئی ہے۔ ( واللہ اعلم) سفید بالوں کا اکھاڑنا سوال:میرے ایک ساتھی عالم دین ہیں، انہوں نے یہ مسئلہ بیا ن کیا ہے کہ سفید بالوں کا اکھاڑنا جائز نہیں لیکن وہ قرآن و حدیث سے اس کا حوالہ نہیں دے سکے، قرآن و حدیث سے اس کا حوالہ درکار ہے؟
Flag Counter