Maktaba Wahhabi

415 - 452
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد عورتوں نے اس پر بایں طور پر عمل کیا کہ انہوں نے راستہ میں ایک طرف ہو کر چلنے کا معمول بنا لیا ، وہ اس قدر راستے سے ہٹ کر چلتی تھیں کہ بعض اوقات ان کی چادریں دیواروں سے چپک جاتی تھیں۔ [1] اس روایت کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس میں شداد بن ابی عمرو نامی راوی مجہول ہے لیکن کچھ حضرات نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ [2] قرآن کریم سے مذکورہ حدیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے ایک کنویں پر پہنچے تو انہوں نے وہاں لوگوں کی ایک بھیڑ کو پایا جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، وہاں دو لڑکیاں بھی دیکھیں جنہوں نے اپنی بکریوں کو روک رکھا تھا۔[3] ان لڑکیوں نے مردوں کے ساتھ اختلاط کو گوار ا نہیں کیا بہر حال مر دو زن کا یہ میل فتنے کا باعث ہو سکتا ہے، ایسا کرنا منع ہے ۔ حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں سے راستہ میں الگ رہیں اورگلی یا سڑک کے عین وسط میں چلنے کے بجائے اس کی ایک جانب ہو کر چلیں ، یہ کیفیت ان کے باحیا اور باوقار ہونے کی علامت ہے۔ اس میں عورتوں کے لئے امن بھی ہے کہ کوئی اوباش انہیں پریشان نہیں کرے گا اور نہ ہی ان سے کوئی غلط توقع وابستہ کر سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم) بچوں میں مساوات سوال:میری چھوٹی بچی بہت فرماں بردار اور خدمت گزار ہے، میں اسے کچھ عطیہ نقدی کی صورت میں دینا چاہتی ہوں جبکہ میرے دوسرے بچے بھی ہیں، کیا شریعت میں ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب: والدین اپنے بچوں کے لئے بہت مہربان ہوتے ہیں ، بعض اوقات والدین سے حسن سلوک اور جذبہ اطاعت گزاری کی بنیاد پر محبت و پیار میں فرق آ سکتا ہے جو انسان کے بس میں نہیں۔ اگرچہ حدیث میں اس قسم کے تفاوت کو پسند نہیں کیا گیا جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں: ’’ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا وہاں آ گیا، اس شخص نے اپنے بیٹے کا منہ چوما اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا، اس تفاوت کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’ تم نے ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا۔ ‘‘[4] تاہم بعض اوقات انسان بے اختیار ہوتا ہے لیکن مالی معاملات میں ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے کہ انسان اپنی اولاد میں سے کسی کو مالی عطیہ دے اور دوسروں کو محروم کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے درمیان عدل و انصاف کرو۔ ‘‘[5] اس حدیث کےپیش نظر والدین کو چاہیے کہ وہ مالی معاملات میں اپنی اولاد کے متعلق عدل و انصاف سے کام لیں، کیونکہ بعض اوقات اس قسم کی نا انصافی سے بچوں میں بغض و عداوت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ( واللہ اعلم)
Flag Counter