Maktaba Wahhabi

426 - 452
متفرقات غیر ملک میں ملازمت کرنا سوال:میرے خاوند غیر ملک میں ملازت کرتے ہیں ، دو سال کے بعد انہیں چھٹی ملتی ہے تو گھر آتے ہیں، کیا شرعاً اس طرح کی ملازمت کی جا سکتی ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے نکاح کے مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقیناً غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘[1] اس آیت کے مطابق دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے باعث اطمینان و سکون ہیں۔ مرد ، بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور بیوی، اپنے خاوند کے ساتھ جذبہ فدائیت رکھتی ہے اس سلسلہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘[2] اس سلسلہ میں متعدد احادیث بھی وارد ہیں، لیکن حصول دنیا نے ہمارے ذہنی سکون کو برباد کر دیا ہے۔ بلاشبہ دنیاوی زندگی میں خواہشات بہت زیادہ ہیں، اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان مختلف قسم کے طریقے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک اپنے بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر بیرون ملک ملازمت بھی اسی قسم کا ایک جھانسہ ہے ، اس لئے خاوند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں احتیاط سے کام لے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر بیوی اور بچوں کے متعلق بہت بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحت رہنے والوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا، امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ [3] اس حدیث کا تقاضا ہے کہ خاوند ، اپنے بیوی بچوں میں رہتے ہوئے ان کی نگرانی کرے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھے نیز یہ بھییاد رہے کہ عورت بھی ایک گوشت اور خون سے پیدا شدہ انسان ے، وہ کوئی لکڑی یا پتھر سے تراشا ہوا بت نہیں ہے۔ اس پر فتن دور میں وہ بھی مختلف قسم کے لوگوں کو دیکھ کر یا ان کی باتیں سن کر متاثر ہو سکتی ہے، اس لئے خاوند کے لئے اس پہلو کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور غلط قسم کی اثر انداز ہونے والی سو سائٹی سے اپنے بیوی بچوں کو بچانا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان خاوند کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف حصول دنیا کے لئے ہی زندگی بسر نہ کرے اور ایک گونگی اور بے حس
Flag Counter