Maktaba Wahhabi

469 - 452
ایک روایت میں ہے کہ جہنم میں وہ اسی قسم کی سزا سے دو چار کیا جائے گا۔ [1] ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس کسی نے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کیا وہ جہنم میں اسی طرح بلندی سے چھلانگ لگا کر مرتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خود کو ختم کر لیا وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے زہر پی کر مرتا رہے گا اور جس نے کسی ہتھیار سے خود کشی کی وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے اسی ہتھیار سے خود کو مارتا رہے گا۔[2] ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خوکشی ایک حرام فعل ہے اور بھوک ہڑتال بھی خودکشی کا پیش خیمہ ہے ، لہٰذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن کریم میں بھی ایسے اقدام سے منع کیا گیا ہے جو اس کی موت کا باعث ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘[3] دوسرے مقام پر فرمایا کہ تم خود کو قتل نہ کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بہت شفقت کرنے والا ہے۔ ‘‘[4] ان قرآن آیات اور احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف ہے کہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنی صحیح بات منوانے کے لئےبھوک ہڑتا ل کے بجائے تنقید و احتجاج کا کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جائے، اپنے مقدمہ کو عدالت میں یا مسلمانوں کی پنچایت میں پیش کرنا چاہیے۔ پرامن اور جائز طریقہ سے اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لئےجد وجہد کرنا مباح ہے لیکن اس کے لئے بھوک ہڑتال کا سہارا لینا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ ( واللہ اعلم) مسجد و مدرسہ سے جامعہ اور مرکز تک سوال:ہمارے ہاں جب کسی کو خدمتِ اسلام کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طور پر وہ ایک مدرسہ یا مسجد قائم کرتا ہے ، جب عمارت بن جاتی ہے تو اسے جامعہ کا نام دے دیا جاتا ہے پھر جب بیرونی سرمائے سے پرشکوہ جدید عمارت کھڑی ہو جاتی ہے تو اسے مرکز کے نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل ’’ مراکز اسلام ‘‘ کی بھر مار ہے ، براہ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح کریں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب: ہر ملک کی دوسرحدیں ہوتی ہیں، ایک جغرافیائی اور دوسری نظریاتی ۔ جغرافیائی حدود کی حفاظت و نگرانی اس ملک کی فوج کرتی ہے جبکہ نظریاتی سرحدوں کے پاسباں اور نگران دینی مدارس اور مساجد ہیں۔ جو اسباب و ذرائع نایاب یا کمیاب ہونے کے باوجود بھی اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے دینی مدارس اور مساجد کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، اسلام کی سربلندی اور باطل نظریات کی سرکوبی کے لئے یہ مدارس و مساجد دن رات مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جہود و مساعی کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ لیکن سوال میں دینی مدارس و مساجد کے حوالہ سے جو بات بیان کی گئی ہے وہ انتہائی باعث افسوس بلکہ جگ ہنسائی کا موجب
Flag Counter