Maktaba Wahhabi

88 - 452
ہیں۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث پیش کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات نماز اور وتر پڑھا کر تے تھے [1] لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [2] کیونکہ اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان راوی ضعیف ہے جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لیے ہمارے رجحان کے مطابق نماز تراویح کی مسنون تعداد گیارہ ہے۔ (واللہ اعلم) محض شک سے وضو کرنا سوال: بعض اوقات دورانِ نماز وضو ٹوٹنے کا شک پڑ جاتا ہے ، ایسی حالت میں نماز ختم کر کے دوبارہ وضو کرنا چاہیے یا اپنی نماز کو جاری رکھا جائے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کر دیں۔ جواب: جب طہارت کے متعلق یقین ہو جائے تو محض شک کی وجہ سے عدم طہارت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے تاوقتیکہ حدث کا یقین نہ ہو جائے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو دوران نماز اپنے پیٹ میں کچھ محسوس کرتا ہے ، آیا اس کا وضو باقی ہے یا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نماز سے نہ نکلے یہاں تک کہ خروج ریح کی آواز سنے یا بدبو پائے۔ [3] اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ طہارت حاصل کر نے کے بعد اصل طہارت اور پاکیزگی ہے تاوقتیکہ اس کا بے وضو ہونا یقینی طور پر ثابت ہو جائے ۔ شک کی صورت میں اس کی طہارت زائل نہیں ہو گی بلکہ باقی اور بر قرار رہے گی لہٰذا محض شک پڑنے سے نماز ختم نہ کی جائے بلکہ اس صورت میں اس کا نماز میں مصروف رہنا صحیح اور درست ہے ہاں اگر اس کا بے وضو ہونا یقینی طور پر ثابت ہوجائے تو نماز ختم کر کے دوبارہ وضو کر ے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینی طور پر بے وضو ہونے کی دو علامتیں بیان کی ہیں: نکلنے والی ہوا کی آواز سنے یا اس کی بدبو پائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے بغیر بھی بے وضو ہونے کا یقین ہو جائے تو بھی اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا، یقین ہو جانے کے بعد ہوا کی آواز یا اس کی بدبو کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے اذان دینا سوال: اگر کسی شخص یا گروہ کی متعدد نمازیں فوت ہو چکی ہوں تو کیا با جماعت ادائیگی کے لیے اذان دینا ضروری ہے یا اذان کے بغیر ہی ادا کی جا سکتی ہے؟ جواب: جس شخص یا گروہ کی کسی وجہ سے متعدد نمازیں فوت ہو جائیں تو با جماعت ادائیگی کے لیے اذان کا اہتمام کیا جائے پھر ہر نماز کے لیے اقامت کہی جائے جیسا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر ، عصر اور مغرب فوت ہو گئیں تو آپ نے پہلے اذان دلوائی پھر ہر نماز کے لیے اقامت کا اہتمام کیا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عصر پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھائی اور پھر اقامت کہی تو آپ نے نما زعشا پڑھائی۔[4]
Flag Counter