Maktaba Wahhabi

247 - 559
کو توڑنے کے لیے اشیاء صرف کی رسد کو بڑھائے جب کہ قیمتیں مقرر کرنے سے منڈی میں ان پر عمل نہیں ہوتا اور چیزوں کی چور بازاری شروع ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کی اذیت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی بات کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نے آخر میں) واضح طور پر اشارہ کیا ہے۔ ہاں اگر اشیاء صرف کی گرانی خود تاجر حضرات کی پیدا کردہ ہو جیسا کہ ذخیرہ اندوزی سے مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے تو ایسے حالات میں حکومت کو کنٹرول کرنے کا حق ہے لیکن اسے کڑی نگرانی کرنا چاہیے تاکہ چور بازاری کا دروازہ نہ کھلے۔ واللہ اعلم! سود پر قرض لینا سوال: میرے والد گرامی جیل میں ہیں، ان کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ درکار ہے، اگر یہ رقم نہیں دی جاتی تو مزید دو سال قید بڑھ سکتی ہے، میرے پاس اتنی رقم نہیں اور مجھے کوئی قرض بھی نہیں دیتا، ایک شخص اس شرط پر قرض دینے کے لیے تیار ہے کہ تین سال بعد اسے دو لاکھ واپس کیے جائیں، کیا اس قسم کی مجبوری کے پیش نظر سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟ جواب: سودی کاروبار یالین دین اس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کام کرنے والے کو سخت وارننگ دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِه﴾[1] ’’اگر تم اس سودی لین دین سے باز نہیں آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ اور احادیث میں سود لینے اور دینے کو اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اسے کسی صورت میں اختیار نہ کرے۔ صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا عذر نہیں جس کی بنیاد پر سود پر قرض لینے کو جائز قرار دیا جائے، جان بچانے کے لیے مردار کھانے کی اجازت قرآن نے دی ہے، لیکن صورت مسؤلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق کسی مال دار سے قرض لے کر اپنے باپ کو رہائی دلائی جا سکتی ہے لیکن اس رہائی کے لیے سود پر قرض لینا شرعاً درست نہیں ہے، ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ دو سال تک مزید قید برداشت کر لی جائے لیکن اس حرام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم! لڑکیوں کے لیے گڑیاں فروخت کرنا سوال: بچوں کے کھیل کا سامان اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں فروخت کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیا اس قسم کے سازو سامان کی خرید و فروخت کی جا سکتی ہے؟ جواب: بچوں کے کھلونے فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔ ہاں اگر کسی خاص کھلونے میں یا کھیل کے سامان میں کوئی شرعی
Flag Counter