Maktaba Wahhabi

278 - 559
رہے گا۔ نیز ایسے لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ صورت مسؤلہ میں بڑے بھائی کو چاہیے کہ مندرجہ بالا آیات کے پیش نظر اپنے باپ کے ترکہ سے چھوٹے بھائی کا جو حصہ بنتا ہے اسے فوراً ادا کرے اور اس کے حصے سے جو نفع کمایا ہے وہ بھی بقدر حصہ اسے واپس کر دے۔ اس نے تقسیم ترکہ سے پہلے جو حج وغیرہ کیا ہے وہ شرعی طور پر ادا تو ہو گیا ہے لیکن اُس برکات سے وہ محروم ہے کیوں کہ اسے پہلے اپنے بھائی کا حق دے کر خود کو سبکدوش کرنا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے۔ بہرحال اب بھی اس کی تلافی حقوق کی ادائیگی اور توبہ و استغفار سے ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم! بھائی کی موجودگی میں بھانجے کا حصہ سوال: ہمارے ہاں ایک غیر شادی شدہ آدمی فوت ہوا، اس کے والدین پہلے سے فوت شدہ ہیں، اس کی دو بہنیں بھی پہلے فوت ہو چکی ہیں، البتہ ان کی اولاد موجود ہے۔ مرنے والے کے صرف تین بھائی موجود ہیں۔ بہنوں کی اولاد میت کی جائیداد سے وراثت کی طلب گار ہے، کیا انہیں شرعی طور پر کچھ ملے گا؟ جواب: شریعت اسلامیہ میں وراثت کے متعلق حسب ذیل بنیادی اصول ہیں: ٭ صاحب ترکہ کی وفات کے وقت وہ زندہ موجود ہوں، جو پہلے فوت ہو جائیں انہیں میت کے ترکہ سے کچھ نہیں ملتا۔ ٭ میت کے قریبی رشتہ داروں کو حصہ دیا جاتا ہے، قریبی قرابت داروں کی موجودگی میں دور والے عزیز و اقارب محروم رہتے ہیں۔ ٭ تجہیز و تکفین، ادائیگی قرض اور نفاذ وصیت کے بعد جو کچھ باقی بچے اسے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس تمہیدی وضاحت کے بعد ورثاء کی حسب ذیل تین اقسام ہیں: ٭ اصحاب الفرائض:… وہ ورثاء جن کے حصے کتاب و سنت میں متعین کر دئیے گئے ہیں۔ مثلاً میاں بیوی، ماں اور بہن وغیرہ۔ ٭ عصبات… میت کے وہ قریبی رشتہ دار جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں، ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکہ کے وارث بنتے ہیں۔ مثلاً بیٹا،بھائی وغیرہ۔ ٭ وہ قریبی رشتہ دار جو اصحاب الفرائض یا عصبات میں سے نہ ہوں مثلاً ماموں اور خالہ وغیرہ۔ اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو تو ترکہ اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہو جاتا ہے۔ اگر شرعی بیت المال کا نظام نہ ہو تو ترکہ ان غریب رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو شرعی وارث نہیں ہیں۔ صورت مسؤلہ میں میت کے بھائی اور بھانجے بھانجیاں موجود ہیں، ان میں سے بھائی عصبات ہیں جو تمام ترکہ کے حق دار ہیں۔ ان کی موجودگی میں اس کی پہلے سے فوت شدہ بہن کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیوں کہ ان کا تعلق ذوی الارحام سے ہے۔ وہ اس وقت وارث بنتے ہیں جب مقررہ حصے لینے والے اصحاب الفرائض اور عصبات وغیرہ نہ ہوں۔ جیسا کہ رسول
Flag Counter