Maktaba Wahhabi

285 - 559
ج: وہ وصیت کسی ناجائز اور حرام کام کے لیے نہ ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’نافرمانی کے کاموں میں کسی کی بات کو نہ مانا جائے کیوں کہ اطاعت تو صرف اچھے اور نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے۔ ‘‘[1] صورت مسؤلہ میں بھائی کی وصیت ایک تہائی سے زیادہ ہے، اس لیے اس پر عمل نہیں ہو گا بلکہ مکان کا تیسرا حصہ مسجد کو دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی ناجائز وصیت کی اصلاح ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾[2] ’’جس کو اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے کسی کی طرف ناجائز جھکاؤ یا قصداً کسی کی حق تلفی کی ہے تو پھر وہ معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان اصلاح کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔‘‘ لہٰذا اس وصیت کی اصلاح کر کے اسے قابل عمل بنایا جا سکتا ہے، مکمل وصیت پر عمل کرنا ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم) مطلقہ بیوی کی وراثت سوال: میرے بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی، ابھی وہ دوران عدت تھی کہ بھائی کا انتقال ہو گیا، کیا اس صورت میں مطلقہ بیوی کو وراثت سے حصہ دیا جائے گا، اس کے متعلق شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟ جواب: ہمارے ہاں یہ مشہور ہے کہ طلاق دیتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں کہ طلاق کے فوراً بعد نکاح ختم ہو جائے، بلکہ عدت ختم ہونے تک اس کا نکاح باقی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوران عدت بلاتجدید نکاح رجوع کر کے اسے گھر میں لانے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا﴾[3] ’’ان کے خاوند دوران عدت بلاتجدید نکاح رجوع کر کے اسے گھر میں لانے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔‘‘ اس دوران اگر خاوند فوت ہو جائے تو مطلقہ بیوی جو دوران عدت ہو اسے خاوند کی جائیداد سے حصہ ملتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی دوران عدت فوت ہو جائے تو اس کے شوہر کو شریعت نے اس کے ترکہ سے بقدر حصہ حق دار بنایا ہے۔ البتہ تین قسم کی مطلقہ عورتیں خاوند کی جائیداد سے حصہ نہیں پاتیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ وہ بیوی جسے رخصتی سے قبل طلاق ہو جائے، چونکہ ایسی عورت کا طلاق ہوتے ہی نکاح ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے مرحوم خاوند
Flag Counter