Maktaba Wahhabi

346 - 559
نکاح کے وقت حقیقی نکاح کی نیت نہیں سوال: میں نے ایک لڑکی سے اس کے والدین کی اجازت اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا، لیکن میری نیت شادی کی نہیں تھی، ہم اس کاغذی کاروائی کے ذریعے بیرون ملک جانا چاہتے تھے تاکہ وہاں جا کر وہ اور میں اپنی پسند کی شادی کر لیں، چنانچہ ہم نے بیرون ملک جا کر اپنی اپنی پسند کی شادیاں طے شدہ پروگرام کے مطابق کر لیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح تھا؟ جواب: اسلام میں آباد کاری کی نیت کے علاوہ کسی اور مقصد کے پیش نظر نکاح کرنا درست نہیں۔ آباد کاری میں بھی یہ نیت ہو کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے اکٹھے رہنا ہے، کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عارضی طور پر آباد کاری کی نیت کرنا بھی صحیح نہیں، دین اسلام میں جب مکمل شروط کے ساتھ ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح واجب ہو جاتا ہے خواہ عقد نکاح کرنے والے طرفین یا ان میں سے کوئی ایک یہ نکاح بطور کھیل و مذاق ہی کر رہا ہو، تمام سنجیدہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح و طلاق کے مسائل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ﴿وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰيٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا﴾[1] ’’تم اللہ کے احکام و مسائل کو ہنسی اور کھیل کا ذریعہ نہ بناؤ۔‘‘ اسی آیت کی بناء پر اللہ کے احکام کو استہزاء و مذاق کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے تو حقیقت ہیں اور اگر ہنسی اور مذاق میں کہے تو بھی حقیقت ہیں۔ نکاح، طلاق اور طلاق سے رجوع۔‘‘[2] اس قرآنی آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک شرعی ذمہ داری قبول کرتے وقت یا اس سے دست بردار ہوتے وقت انسان کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اس کے نتائج پر غور کر لینا چاہیے تاکہ بعد میں ندامت و پریشانی نہ ہو۔ صورت مسؤلہ میں جب نکاح کی شرائط موجود ہیں تو یہ عقد نکاح صحیح ہے۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ نیت نکاح کی نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک نکاح کے وقت اس طرح کی نیت کرنا اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک چور دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے احکام کے ساتھ ایک مذاق کی صورت ہے جو ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ بہرحال سوال میں ذکر کردہ ’’کاغذی کاروائی‘‘ سے فریقین نکاح کے بندھن میں آ چکے ہیں، اگرچہ ان کی نیت بیرون ملک جا کر اپنی اپنی شادیاں کرنا تھا، اگر یہی بات تھی تو والدین کو پہلے سے اپنے ارادے سے آگاہ کر دیا جاتا تاکہ وہ اس کے لیے کوئی اور راستہ نکالتے، عقد نکاح کو اس کے لیے استعمال کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈراموں اور فلموں میں فرضی طور پر میاں بیوی کا کردار ادا کرنا بھی صحیح نہیں کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اللہ کے ہاں ایسا کرنے سے وہ میاں بیوی ہی متصور ہوں جبکہ وہ ایسا نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کے مطابق باہم معاملہ کرتے ہیں۔ واللہ اعلم!
Flag Counter