Maktaba Wahhabi

358 - 559
نے جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو پر تکلف ولیمہ کا اہتمام کیا جس کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیوی کا اس قدر ولیمہ نہیں کیا، جس قدر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا کیا تھا، اس میں، آپ نے ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا۔‘‘[1] حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ د و مد جو کے ساتھ کیا۔‘‘[2] حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستو ہی پیش فرمائے تھے۔[3] بہرحال خوشی کے موقع پر جو تقریبات کی جاتی ہیں، ان پر ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے۔ (واللہ اعلم) وظیفہ زوجیت سے پہلے طلاق سوال: ایک لڑکی کے کسی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دیا گیا، لڑکی نے خاوند کو اپنے پاس نہیں آنے دیا، خاوند نے احتجاج کے طور پر اگلے دن اسے طلاق دے دی، اس صورت میں لڑکی کو طلاق کی عدت گزارنا ہو گی یا نہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟ جواب: وظیفہ زوجیت ادا کرنے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں بیوی کے لیے کوئی عدت نہیں، طلاق ملتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا﴾[4] ’’اے ایمان والو! جب تم مومن خواتین سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے پیشتر طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان کے ذمے کوئی عدت نہیں، جس کے پورا ہونے کا تم ان سے مطالبہ کرو۔‘‘ اس آیت کریمہ میں چھونے یا ہاتھ لگانے سے مراد ہم بستری کرنا ہے، لہٰذا جماع سے قبل اگر بیوی کو طلاق ہو جائے تو اس پر عدت گزارنا ضروری نہیں۔ البتہ خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں اسے عدت وفات چار ماہ دس دن پورے کرنا ہوں گے، لیکن طلاق ملنے کی صورت میں بیوی کے ذمے کوئی عدت نہیں۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ میاں بیوی شب زفاف کے موقع پر اکٹھے ہوئے ہیں اور انہیں خلوت صحیحہ کی صورت میں وظیفہ زوجیت ادا کرنے کا موقع میسر آیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دونوں سے بیان حلفی لیا جائے کہ اس رات وظیفہ زوجیت ادا نہیں ہوا، صرف لڑکی کے کہنے پر فیصلہ نہ دیا جائے۔ اس بات کی تسلی کرنے کے بعد عدت نہ ہونے کا فیصلہ دیا جائے۔ البتہ ایسی صورت میں بھی خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو نصف مہر ادا کرے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter