Maktaba Wahhabi

482 - 559
کے لیے حلال کیا گیا ہے جب کہ مردوں کے لیے حرام ہے۔‘‘[1] امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس قسم کی احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ((باب لبس الھریر والذہب للنسآء)) ’’عورتوں کے لیے ریشم اور سونا پہننا۔‘‘[2] مذکورہ احادیث و آثار کے پیش نظر عورتوں کے لیے سونے کے زیورات زیب تن کرنا جائز ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس سلسلہ میں میانہ روی اختیار کی جائے کیوں کہ زیادہ زیورات پہننے سے فخر و تکبر کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے غرباء کا دل بھی دکھتا ہے، اس لیے زیورات کی بہتات اور کثرت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم! عورت کا اپنے بال کٹوانا سوال: ہمارے بازاروں اور گلی کوچوں میں بیوٹی پارلر بنے ہوئے ہیں، جہاں عورتیں مغربی تہذیب کی نقالی کرتی ہوئی اپنے بالوں کی کٹنگ کرواتی ہیں، بعض مقامات پر یہ کام مرد حضرات کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ازواج مطہرات کے ایک عمل کا حوالہ دیا جاتا ہے، براہ کرم اس کی وضاحت کر دیں۔ جواب:ہمارے رجحان کے مطابق عورت کے لیے بال کٹوانے کے پانچ مقاصد سامنے آتے ہیں: ٭ کسی بیماری کے پیش نظر بالوں کو کٹوایا یا منڈوایا جائے۔ ٭ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے بال کٹوائے یا ترشوائے جائیں۔ ٭ مغربی تہذیب و ثقافت کو اپناتے ہوئے اپنے بالوں کو ہلکا کروایا جائے۔ ٭ دوسروں کو دکھانے اور خوبصورت نظر آنے کے لیے بال کٹوائے جائیں۔ ٭ اپنے خاوند کے لیے زیب و زینت کے طور پر اس فیشن کا اختیار کیا جائے۔ جہاں تک پہلے مقصد کی بات ہے تو بیماری کی وجہ سے ایسا کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جیسا کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے حج کے موقع پر بیماری کی وجہ سے اپنے سر کے بال منڈوا دئیے تھے۔[3] مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے بالوں کا کٹوانا یا منڈوانا جائز نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔[4] مغربی تہذیب و ثقافت کو اپناتے ہوئے بالوں کو ہلکا کرنے کی بھی شرعاً اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’جو کسی قوم
Flag Counter