Maktaba Wahhabi

99 - 559
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ اقامت، امام کے خروج پر ہونی چاہیے، امام کے خروج کا مطلب یہ ہے کہ ٭ اگر وہ مسجد سے باہر ہے تو وہ صفوں میں آجائے۔ ٭ اگر صف میں بیٹھا ہے تو مصلے کی طرف چلنے لگے۔ جب اس طرح خروج امام ہو جائے تو اقامت کہنا شروع کر دی جائے، جب اقامت کہی جائے تو نمازی کھڑے ہو جائیں اور صف بندی کریں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نمازی اس وقت کھڑے ہوں جب امام آجائے یا مصلے کی طرف چلنے لگے۔ اگر اتفاق سے لیٹ ہو جائے تو اس کا انتظار کرنا چاہیے، کیوں کہ جو وقت نماز کے انتظار میں گزرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔ امام کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کی پابندی کرے اور حتی الامکان تاخیر سے اجتناب کرے۔ مقتدی حضرات کو بھی درگزر سے کام لینا چاہیے اور اقامت کے حساب سے کھڑا ہونا چاہیے۔ اذان کا جواب سوال :اذان کا جواب کس طرح دیا جائے؟ آیا جس طرح مؤذن کہتا ہے، انہی کلمات کو دہرا دیا جائے یا کچھ کلمات کے جواب میں متبادل الفاظ کہے جائیں؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب: اذان کا جواب دینے کے متعلق مختلف روایات ہیں، بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اذان کے جواب میں بعینہٖ مؤذن کے کلمات دہرا دیے جائیں۔ جیسا کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہتا ہے۔‘‘[1] جبکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ’’حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح‘‘ کے موقع پر ’’لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘‘ پڑھا جائے جیسا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اذان میں ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ کے موقع پر ’’لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘‘ پڑھا اور فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی کو اس طرح کہتے سنا ہے۔‘‘[2] ان مختلف روایات کے پیش نظر اذان کے جواب کے متعلق تین صورتیں ممکن ہیں: ٭ بعینہٖ وہی الفاظ دہرا دیے جائیں جو مؤذن کہتا ہے۔ ٭ ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر ’’لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘‘ پڑھا جائے اور باقی کلمات موذن کی طرح کہے جائیں۔ ٭ ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ بھی پڑھا جائے اور ’’لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘‘ بھی کہا جائے۔
Flag Counter