Maktaba Wahhabi

128 - 358
ماتمی پروگرام تشکیل دیا، حالانکہ یہ لوگ افضل ترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا مگر اس بات کے باوجود کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں کسی نے آپ کا ماتم نہ کیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے مگر کسی نے کوئی ماتم نہ کیا، لوگوں کو رونے دھونے کے لیے جمع کیا نہ انہوں نے قرآن خوانی کی۔ بعد ازاں عثمان و علی رضی اللہ عنہما شہید کئے گئے، تو اس موقع پر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا کہ وہ ان کے لیے دعا کریں یا مجلس ترحیم منعقد کریں۔ میت کے عزیزوں یا ہمسایوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ میت کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھجوائیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو گھر والوں سے فرمایا: (اصْنَعُوا لآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ)(رواہ الترمذی فی کتاب الجنائز) ’’ آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، تحقیق ان کے پاس ایک ایسی خبر پہنچی ہے جو انہیں مشغول کر دے گی۔‘‘(اور وہ کھانا وغیرہ تیار نہیں کر سکیں گے)۔ گھر والے ایک مصیبت سے دوچار ہیں، اب اگر کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھیجا جائے تو یہ ایک مشروع کام ہے۔ لیکن انہیں ایک نئی مصیبت سے دوچار کرنا اور لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنے کا پابند بنا دینا سنت کے یکسر خلاف ہے۔ بلکہ بدعت ہے، جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: (كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ، بَعْدَ دَفْنِهِ مِنْ النِّيَاحَةِ)(رواہ ابن ماجۃ) ’’ ہم میت والوں کے ہاں جمع ہونے اور دفن کے بعد کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔‘‘ اور نوحہ یعنی بلند آواز سے چیخنا چلانا حرام ہے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب قبر دیا جاتا ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، ہاں آنسو بہانے میں کوئی حرج نہیں۔ وباللّٰه التوفيق …شیخ ابن اب باز… تعزیت کے لیے دنوں کی تخصیص نہیں ہے سوال 4: کیا میت کے پس ماندگان سے تعزیت کے لیے تین دن مخصوص کرنا بدعت ہے؟ کیا بچوں، بوڑھوں اور لاعلاج مریضوں کی وفات کے بعد ان کی تعزیت کرنا جائز ہے؟
Flag Counter