Maktaba Wahhabi

134 - 358
زیورات پر زکوٰۃ سوال 1: کیا اس سونے پر زکوٰۃ فرض ہے جسے عورت صرف اپنی زیب و زینت اور استعمال کے لیے سنبھال رکھتی ہے اور وہ تجارتی مقاصد کے لیے نہیں ہے؟ جواب: زیورات اگر تجارتی مقاصد کے لیے نہ ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اگرچہ ایسے زیورات محض زیب و زینت کے لیے ہوں پھر بھی ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔ جس کا وزن ٹھیک بانوے گرام(ساڑھے سات تولے)ہے اگر زیور(سونا)اس سے کم مقدار میں ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، ہاں زیورات اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے، بشرطیکہ ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے، جس کی مقدار چھپن سعودی ریال ہے۔ اگر چاندی کے زیورات اس سے کم ہوں تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تجارت کے لیے ہوں اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے۔ استعمال کے لیے تیار کئے گئے سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ فرض ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی ارشاد ہے: (مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ، وَلا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ،)(رواہ مسلم، کتاب الزکاۃ، حدیث 24) ’’ سونے اور چاندی کا کوئی بھی مالک جو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس حالت میں ہو گا کہ اس کے لیے آگ کی چوڑی پتریاں بچھائی جائیں گی، پھر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغ دئیے جائیں گے۔‘‘ نیز عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ’’ کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟‘‘ اس نے جوابا عرض کیا: ’’ نہیں ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللّٰهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟، فَأَلْقَتْهُمَا
Flag Counter