Maktaba Wahhabi

176 - 358
حق مہر کا مسئلہ سوال 12: کیا آدمی اپنی بیٹی یا بہن کے مہر کے عوض نکاح کر سکتا ہے؟ جواب: کسی شخص کی بیٹی یا بہن کا مہر اس عورت کا اپنا حق ہے، ہاں اگر کوئی عورت اپنا سارا مہر یا اس کا کچھ حصہ اپنی رضامندی اور اختیار سے اسے ہبہ کر دے اور اس کا یہ عمل شرعا معتبر بھی ہو تو وہ ایسا کر سکتی ہے، اور اگر وہ اپنا مہر اسے نہ دے تو اس کا اس سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے صرف باپ اپنی بیٹی کے حق مہر سے اتنا سا لے سکتا ہے جو بیٹی کے لیے ضرر رساں نہ ہو اور نہ وہ کسی سے امتیازی سلوک کرے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ، وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ)(رواہ الترمذی فی الاحکام باب 22 والنسائی فی کتاب البیوع باب 1 و احمد 6؍162 و ابن ماجہ فی کتاب التجارات باب 64) ’’ سب سے پاکیزہ مال جو تم کھاتے ہو وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی سے ہے۔‘‘ ۔۔۔دارالافتاء۔۔۔ بیویوں کی تعداد سوال 13: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنا غیر مشروع ہے، سوائے اس آدمی کے کہ جس کی کفالت میں یتیم بچیاں ہوں اور وہ ان میں عدم انصاف سے خائف ہو، تو اس صورت میں وہ ان کی ماں یا کسی ایک لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں وہ مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ﴾(النساء 4؍3) ’’ اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو سے، تین تین سے چار چار سے۔‘‘ ہم جناب سے حقیقت کی وضاحت چاہتے ہیں۔
Flag Counter