Maktaba Wahhabi

18 - 358
”میں نے۔۔۔مسجد نبوی میں۔۔۔ایک سو بیس حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دیدار کا شرف حاصل کیا اوردیکھا کہ ان کی احتیاط کا یہ عالم تھاکہ ان میں سے محدث کی یہ خواہش ہوتی تھی کاش اس کے بجائے اس کا کوئی دوسرا بھائی افتاء کے فرض سے عہدہ برآ ہو۔“[1] اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ابن ابی یعلیٰ کا یہ قول بیان فرمایا ہے،بہرآئینہ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ سلف صالح فتویٰ دینے میں کس قدر محتاط تھے لیکن اس پر بھی تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ طلبہ کو تعلیم دینا اور استفتاء کرنے والوں کو فتویٰ دینا فرض کفایہ ہے اور اگر کسی مسئلہ یا واقعہ کے پیش آنے کے وقت صرف ایک ہی ایسا شخص ہو جو اس کا جواب دے سکتا ہو تو پھر اس کےلیے جواب دینافرض عین ہے اور اگروہاں اس کےعلاوہ کوئی اور شخص بھی اس کا اہل ہوتوپھر یہ دونوں کے لیے فرض کفایہ ہوگا۔“[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم مفتی اعظم: حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تبلیغ وافتاء کے منصب پر جنہیں سب سے پہلے فائز ہونے کا شرف حاصل ہے،وہ خودسیدالمرسلین،امام المتقین،خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہیں۔آپ وحی الٰہی کی روشنی میں فتویٰ دیا کرتے تھے اور اللہ احکم الحاکمین کے اس ارشاد پر عمل پیرا تھے کہ: (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ)(ص 38؍86) ”(اے پیغمبر)کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں۔“[3] آپ کے فتاویٰ جامع احکام اور فصل خطاب پر مشتمل تھے اور وجوب اتباع میں ثانی کتاب تھے کہ کسی مسلمان کے لیے ان سے روگردانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)(النساء:4؍59)
Flag Counter