Maktaba Wahhabi

188 - 358
کہ نکاح متعہ کی صورت میں معینہ عرصہ پورا ہونے پر فریقین میں از خود جدائی ہو جاتی ہے، خاوند چاہے یا نہ چاہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ ایسے نکاح میں ممکن ہے کہ خاوند بیوی میں دلچسپی کا اظہار کرے تو وہ اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہی ہے۔ میرے نزدیک ایسا نکاح صحیح ہے، متعہ نہیں، اس لیے کہ اس پر متعہ کی تعریف صادق نہیں آتی لیکن یہ نکاح اس اعتبار سے حرام ہے کہ اس میں بیوی اور اس کے خاندان کو دھوکہ دیا جاتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ دہی کو حرام قرار دیا ہے۔اگر اس عورت یا اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہو جائے کہہ یہ شخص بس ایک مدت تک اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے کبھی بھی آمادہ نہ ہوں گے۔ بعینہ یہ شخص بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی سے شادی کرے اور پھر مطلب پورا ہونے کے بعد اسے طلاق دے دے۔ آخر یہ شخص دوسروں سے وہ سلوک کیوں کرنا چاہتا ہے جسے وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا؟ یہ رویہ ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ)(البخاری، حدیث 13) ’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ پسند نہ کرے جو کچھ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس کام کو ایسے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی بھی قائل نہیں وہ یہ کہ بعض لوگ صرف شادی رچانے کے لیے ہی بیرون ملک جاتے ہیں، پھر جس عورت کے ساتھ انہوں نے ایک معینہ مدت تک شادی کی ہوتی ہے اس عرصے تک اس کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ رویہ بھی سخت ممنوع ہے، چونکہ اس میں سنگین قسم کا دھوکہ اور فراڈ ہے، لہذا ایسے غیر پسندیدہ اعمال کا سدباب کرنا ضروری ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ لوگ جاہل ہیں اور اکثر لوگوں کو ان کی نفسانی خواہشات حدود اللہ کو پامال کرنے سے نہیں روکتیں۔ …شیخ ابن عثیمین… سادہ شادی! نہایت برکت سوال 26: بھاری بھر کم حق مہر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی سے متعلق آپ کی کیا
Flag Counter