Maktaba Wahhabi

196 - 358
گے،یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر لڑکیاں شادی کئے بغیر تیس سال یا اس سے بھی زیادہ کی عمر کی ہو جاتی ہیں۔ جواب: ایسا رویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ)(ابن ماجہ، کتاب النکاح باب 46) ’’ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کے دین اور خلق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کرا دو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: (يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ)(متفق علیہ) ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو وہ شادی کر لے۔ شادی نگاہوں کو جھکا دینے والی اور شرم گاہ کو انتہائی محفوظ رکھنے والی ہے۔‘‘ شادی سے انکار شادی کے مقاصد و مصالح کو فوت کر دیتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں اور ان کے سرپرستوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ درس و تدریس کو بہانہ بنا کر شادی سے انکار نہ کریں، البتہ یہ ممکن ہے کہ لڑکی بوقت نکاح لڑکے سے۔ تعلیم مکمل کرنے کی شرط طے کر لے۔ اسی طرح جب تک وہ بچوں کی مصروفیت میں نہیں پڑتی سال دو سال کے لیے تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کی شرط عائد کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ رہا یونیورسٹی کی سطح تک اعلیٰ تعلیم میں عورت کی ترقی کا مسئلہ، تو ہمارے معاشرے کو اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر عورت ابتدائی تعلیمی مرحلہ مکمل کر کے لکھنا پڑھنا جان لے، قرآن مجید، اس کی تفسیر، احادیث نبویہ اور ان کی تشریحات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائے تو یہی کافی ہے۔ ہاں ایسے علوم میں ترقی کرنا جو لوگوں کے لیے اشد ضروری ہیں مثلا ڈاکٹری یا دیگر علوم تو ان کے حصول میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس مرحلے میں مخلوط تعلیم جیسی قباحتیں نہ ہوں۔ …شیخ ابن عثیمین… حائضہ سے نکاح کا حکم سوال 34: میں ایک نوجوان لڑکی ہوں، کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان کے ساتھ شادی کا پروگرام
Flag Counter