Maktaba Wahhabi

198 - 358
جماع کیا ہو تو پھر اس پر انتظار کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ عورت حائضہ ہو جائے اور پھر پاک ہو یا یہ کہ حمل واضح ہو جائے۔ سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾طلاق 65؍4) ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں یوں بھی ہے: (مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا , ثُمَّ لِيطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا) ’’ اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔‘‘ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ دوران حیض عورت سے نکاح کرنا جائز اور صحیح ہے تو میری رائے میں خاوند کو طہر تک بیوی کے پاس نہیں جانا چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ طہر سے پہلے اس کے پاس جائے گا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ کہیں دوران حیض ممنوع کام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے، شاید وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ کر سکے، خاص طور پر جب وہ جوان ہو تو اسے طہر تک انتظار کرنا چاہیے تب وہ بیوی کے ساتھ اس وقت مجامعت کرے جب وہ شرمگاہ سے لطف اندوز ہونے پر قادر ہو۔ واللہ اعلم …شیخ ابن عثیمین… بیوی کی دبر میں جماع کرنے کا حکم سوال 35: ایک شخص نے اپنی بیوی سے اس کی دبر میں اپنی خواہش پوری کرنے کا مطالبہ کیا۔ کیا دینی نقطہ ٔنظر سے اس کا یہ عمل درست ہے؟ جواب: یہ عمل منکر ہے۔ تحقیق ابوداؤد اور نسائی وغیرہ نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا) ’’ اپنی بیوی کی دبر میں جماع کرنے والا لعنتی ہے۔‘‘ …شیخ محمد بن صالح عثیمین…
Flag Counter