Maktaba Wahhabi

20 - 358
”بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں،تم انہیں ضائع نہ کرو۔کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔کچھ اشیاء کوحرام قراردیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرو اور کچھ اشیاء سے اس نے سکوت فرمایا ہے اور یہ بھولنے کی وجہ سے نہیں بلکہ تم پر رحمت کے پیش نظر ہے،لہذاان کے بارے میں سوال نہ کرو۔“[1] ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ: (أَعْظَمَ المُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ) ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جوحرام نہ تھی مگر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے اسے حرام قراردے دیا گیا۔“[2] حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات پرسختی سے عمل کیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی سوالات پوچھے جوناگزیر تھے اور جن کے پوچھنے کی انہیں واقعتاً ضرورت تھی،چنانچہ قرآن وسنت کے صفحات شاہد ہیں کہ انہوں نےسابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اصحاب کی طرح نہ تو بے معنی سوالات پوچھے اور نہ کسی کٹ حجتی سے کام لیا۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دل کے انتہائی پاکباز تھے،علم کے اعتبار سے بے حد گہرے،تکلف میں سب سے کم،بیان کے اعتبار سے سب سے حسین،ایمان میں سب سے پکے،بات کے سب سے سچے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تقرب الٰہی کے سب سے اونچے مقام پرفائز تھے۔یہی لشکر ایمان،عسکر قرآن اور عبادالرحمٰن تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بعد افتاء کے بلند منصب پر فائز ہوئے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور افتاء حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض سے تو کثرت سے فتاویٰ منقول ہیں اور بعض کے فتاویٰ کی تعداد انتہائی قلیل ہے جب کہ ان میں سے بعض کے فتاویٰ کی تعداد کثرت وقلت کے درمیان ہے،بہرحال ان صحابہ کرام کی تعداد ایک سوتیس سے بھی کچھ زیادہ ہےجن کےفتاویٰ محفوظ ہیں۔
Flag Counter