Maktaba Wahhabi

21 - 358
جن حضرات سے بکثرت فتاوی منقول ہیں،ان میں حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ،عبداللہ بن مسعود، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ امام ابن حزم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے فتاویٰ کو اگر جمع کیا جائےتو ان سے ایک بہت ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے، چنانچہ ایک بہت بڑے امام و محدث ابو بکر بن موسیٰ بن یعقوب نے امیر المومنین مامون کے لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ کو مرتب کیا تو وہ بیس کتابوں پر مشتمل تھے۔ امام ابو محمد بن حزم اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باقاعدہ فہرست مرتب فرمائی ہے جو منصب افتاء پر فائز تھے نیز انھوں نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ فتویٰ نویسی میں کثرت، قلت یا توسط کے کس درجہ پر فائز تھے[1]بلکہ امام ابن حزم نے تو ان تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین رحمۃاللہ علیہم کی ایک مفصل فہرست بھی مرتب فرمادی ہے جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بصرہ،کوفہ، شام مصر اور دیگر علاقوں میں منصب افتاء پر فائز تھے۔[2] فتویٰ کون دے سکتا ہے؟ دین کا معاملہ چونکہ بے حد اہمیت کا حامل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے علم کے بغیر دین کے بارے میں بات کرنے کو حرام قراردیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ)(الاعراف:7؍33) ”کہہ دو کہ میرے رب نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمھیں کچھ علم نہیں۔“[3]
Flag Counter