Maktaba Wahhabi

242 - 358
نذر کی جہت تبدیل کرنے کا حکم سوال 7: ایک شخص نے مخصوص مقاصد کے لیے مخصوص نذر مانی، پھر اس نے دوسرے مقاصد کو زیادہ مفید سمجھا، تو کیا اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کرنا جائز ہے؟ جواب: مذکورہ سوال کا جواب دینے سے قبل چند تمہیدی باتیں ضروری ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کو نذر نہیں ماننی چاہیے، کیونکہ نذر ماننا مکروہ ہے یا حرام۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ نذر خیر کا باعث نہیں ہے اس کی وجہ سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے، لوگ جس مقصد کو نذر کی وجہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں حقیقتا اس کا سبب نذر نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ بیمار ہونے پر کسی کام کے کرنے کی نذر مانتے ہیں، کسی گم شدہ چیز کے ملنے کی صورت میں کچھ اور کرنے کی نذر مانتے ہیں۔ اب اگر اسے شفا حاصل ہو جائے یا گم شدہ چیز واپس مل جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ نذر کی وجہ سے ہوا، لہذا آپ نذر مانے بغیر اللہ تعالیٰ سے شفا اور گم شدہ چیز کے مل جانے کی دعا کریں، نذر ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ عموما نذر ماننے والے حضرات اگر ان کی مراد بر آئے تو وہ ایفاء نذر میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ اکثر اوقات اسے چھوڑ ہی دیتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٧٥﴾ فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٧٦﴾ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿٧٧﴾(التوبۃ 9؍75-77) ’’ اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں مال عطا فرما دے تو ہم خوب صدقہ کریں گے اور نیکوکاروں میں ہو جائیں گے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دے دیا تو اس میں بخیلی اور روگردانی کرنے لگے وہ منہ پھیرے ہوئے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا یہ دی کہ ان کے دلوں میں اس روز تک کے لیے نفاق پیدا کر دیا کہ جس دن وہ اللہ کے پاس حاضر ہوں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔‘‘
Flag Counter