Maktaba Wahhabi

26 - 358
عمل نہ کیا ہو تو اس کے لیے ایک قول کے مطابق اس کے اس پہلے فتویٰ پر عمل کرنا حرام ہے جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ محض مفتی کے رجوع کی وجہ سے اس کے پہلے فتویٰ پر عمل کرنا حرام نہیں ہوگا بلکہ اسے چاہیے کہ اس کے متعلق کسی اور مفتی سے بھی فتویٰ طلب کرے اور اگر دوسرے مفتی کا فتویٰ اس کے پہلے فتویٰ کے مطابق ہو تو اس پر عمل کرے اور اگر وہ اس کے دوسرے فتویٰ کے مطابق فتویٰ دے اور کسی اور نے بھی اس کے اس دوسرے فتویٰ کے خلاف فتویٰ نہ دیا ہو تو پھر پہلے فتویٰ پر عمل کرنا حرام ہوگا اور اگر کسی شہر میں مفتی ہی ایک ہو تو پھر اس سے یہ پوچھ لے کہ اس نے اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کیوں کیا ہے؟ اگر اس کے رجوع کا سبب یہ ہو کہ اس نے اس مسئلہ میں کسی دوسرے قول کواختیار کر لیا ہے جب کہ پہلا قول بھی درست ہے تو اس صورت میں پہلے فتویٰ پر عمل کرنا حرام نہ ہو گا اور اگر اس کے رجوع کا سبب یہ ہو کہ اس کا پہلا فتویٰ صحیح نہیں تھا اور اس میں اس سے غلطی ہو گئی ہے تو پھر اس کے مطابق عمل کرنا حرام ہے بشرطیکہ اس کےرجوع کا سبب یہ ہو کہ اس کا پہلا فتویٰ شرعی دلیل کے خلاف ہو اور اگر اس کا رجوع محض اس وجہ سے ہو کہ وہ اس کے مذہب کے خلاف ہے تو پھر مستفتی کے لیے اس کے مطابق عمل کرنا حرام نہیں ہوگا۔[1] کیا مستفتی کو بتانا ضروری ہے؟ اگر مفتی اپنے فتویٰ سے رجوع کر لے یا اس کے اجتہاد میں کوئی تبدیلی رونما ہو جائے تو کیا اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مستفتی کو بھی اس کے بارے میں مطلع کرے؟تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مفتی کو یہ معلوم ہو کہ فتویٰ دینے میں اس سے غلطی ہو گئی ہے اور اس کا فتویٰ کتاب و سنت کی کسی ایسی نص کے خلاف ہے جس کے مقابلہ میں کوئی نص موجود نہیں ہے یا اس کا فتویٰ اجماع امت کے خلاف ہے تو اس سورت میں اسے چاہیے کہ وہ مستفتی کو مطلع کرے اور اگر اسےیہ معلوم ہے کہ اس کا فتویٰ صرف اس کے اپنے فقہی مذہب یا اپنے امام کے قول کے خلاف ہے تو اس صورت میں مستفتی کو مطلع کرنا واجب نہیں ہے۔[2]
Flag Counter