Maktaba Wahhabi

324 - 358
اس سے محروم رکھیں، بلکہ ہدایت کے اصول کے تحت ان میں عدل و انصاف سے کام لینا واجب ہے۔ سب کو دیا جائے یا سب کو چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (اتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ)(متفق علیہ) ’’ اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں میں عدل کرو۔‘‘ اگر تمام بچے کسی ایک کے ساتھ خصوصی سلوک پر راضی ہوں تو پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ بالغ اور راشد ہوں۔ اسی طرح اگر بچوں میں سے کوئی ایک کسی بیماری یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے روزی کمانے سے قاصر ہو اور اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اس کا باپ یا بھائی نہ ہو اور نہ حکومت کی طرف سے اس کی کفالت کا کوئی انتظام ہو تو اس صورت میں آپ اس پر بقدر ضرورت خرچ کر سکتی ہیں، تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کر دے۔ …شیخ ابن اب باز… پرانے سونے کا نئے سونے سے تبادلہ کا حکم سوال 17: ایک عورت پرانا سونا لے کر سونے کی مارکیٹ میں جاتی ہے اور صراف(سنار)سے کہتی ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ جب وہ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیتا ہے تو کہتی ہے کہ اس کی قیمت کے بدلے مجھے نیا سونا دے دو۔ کیا اس طریقہ کار میں شریعت اسلامیہ کے مخالف کوئی چیز ہے؟ جواب: یہ معاملہ ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ سونے کے بدلے سونے کی بیع ہے اور تماثل کا علم نہیں جو کہ معاملے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ يَدًا بِيَدٍ فمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى)(صحیح مسلم) ’’ سونا سونے کے بدلے(فروخت ہو سکتا ہے)جبکہ وہ مثل بمثل(ایک جیسا)ہو، یا برابر ہو، ہم وزن ہو، اور نقد در نقد ہو۔ جو زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے تو اس نے سود کا ارتکاب کیا۔‘‘ اس لیے سونے کو زیادہ سونے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اس تماثل سے مانع ہے جو کہ ایسے معاملے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اس کے متعلق شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود سونے کو مستقل قیمت وصول کر کے فروخت کر دے، پھر اسی شخص سے یا کسی اور
Flag Counter